Showing posts with label Islamic knowledge. Show all posts
Showing posts with label Islamic knowledge. Show all posts

Wednesday, March 30, 2022

Qalandar Shabaz Osman MarawT, and he was a resident of Aurora

 Qalandar Shabaz Osman MarawT, and he was a resident of Aurora

His real name was Osman MarawT, and he was a resident of Aurora, the city of Aurora.  When Ali Ashrafi conquered Azerbaijan, he went out and arrived in Multan.  After Multan he traveled to Mashhad, Baghdad, Mecca, and Medina, and stayed there for many years.  In the latter part of his age, he came to Sehwan, where he died in 1252, after having lived only 2 years.  During his two years in Sindh, his role in the propagation and spread of the welfare of the people of Sindh or the spread of mystical thought is unclear.  The period in which he came to Sindh, during this period, the majority of the people belonged to Dumit, while the rulers were followers of the Ismaili sect of Islam.  The Islamic caliphate from the Ishmaelites was a Kharif from the beginning, so it is quite possible that Qalandar himself did not come to Sehwan, but rather he was sent to Sindh against non-religions and Ismailis.  The reason for this is that after the arrival of Bahauddin Zakaria and Qalandar Shahbaz in Sindh, the clashes between the Ismaili sect started and the anti-religious religion of Sindh started spreading.  Qalandar continued to enjoy the ruling class not only in his life but also after his death.  After his death, his tomb was erected by Malik Rukuddin, whose rebuilt Mirza Jani Beg Tarkhan.  During his tenure the Shahjahan king decorated the tombs, while the Kalhora monastery and the Mirn dome erected silver nails and tomb doors.  The current gold gate of the tomb was ruled by Iran during the reign of Zulfiqar Ali Bhutto.  Qalandar is the largest foot of Sindh today.  Every year, under the patronage of his patron and public servant, on the one hand, ordinary people flock to the tomb of a man who does not seem to find any role in the spread of the welfare and mysticism of the English society.  And intellectuals read articles in praise of a person who had nothing to do with English literature and English language usage.  A little too much of his text is found in Persian.  Writing papers in his glory, writers and intellectuals receiving financial compensation and Shahbaz Award from the Department of Culture must think that Qalandar was a devotee of the Indus language instead of the English language, for which the gear said: You can learn Persian, you are a slave!

 (Excavation of the tomb means investigation)

شعبان کی پندرہویں شب”شب برأت SHABE BARAT 15 SHABAN

 شعبان کی پندرہویں شب”شب برأت“کہلاتی ہے۔یعنی وہ رات جس میں مخلوق کوگناہوں سے بری کردیاجاتاہے۔ ۔تقریبًادس صحابہ کرامؓ سے اس رات کے متعلق احادیث منقول ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ” شعبان کی پندرہویں شب کومیں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کواپنی آرام گاہ پرموجودنہ پایاتوتلاش میں نکلی دیکھاکہ آپ جنت البقیع کے قبرستان میں ہیں پھرمجھ سے فرمایاکہ آج شعبان کی پندرہویں رات ہے ،اس رات میں اللہ تعالیٰ آسمان دنیاپرنزول فرماتاہے اورقبیلہ بنی کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعدادسے بھی زیادہ گنہگاروں کی بخشش فرماتاہے۔“دوسری حدیث میں ہے”اس رات میںاس سال پیداہونے والے ہربچے کانام لکھ دیاجاتاہے ،اس رات میں اس سال مرنے والے ہرآدمی کانام لکھ لیاجاتاہے،اس رات میں تمہارے اعمال اٹھائے جاتے ہیں،اورتمہارارزق اتاراجاتاہے۔“اسی طرح ایک روایت میں ہے کہ” اس رات میں تمام مخلوق کی مغفرت کردی جاتی ہے سوائے سات اشخاص کے وہ یہ ہیں۔مشرک،والدین کانافرمان،کینہ پرور،شرابی،قاتل،شلوارکوٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا اورچغل خور،ان سات افرادکی اس عظیم رات میں بھی مغفرت نہیں ہوتی جب تک کہ یہ اپنے جرائم سے توبہ نہ کرلیں۔حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ایک روایت میں منقول ہے کہ اس رات میں عبادت کیاکرواوردن میں روزہ رکھاکرو،اس

Wednesday, March 23, 2022

بھارت دراصل کس کا ہے Whose India is it

 *بھارت دراصل کس کا ہے؟*


*(ہندوستان کی تاریخ) =*

*آخر تک پڑھنے کے قابل۔*


غوری سلطنت سے نریندر مودی تک


 غوری سلطنت


 1 = 1193 محمد غوری۔

 2 = 1206 قطب الدین ایبک

      3 = 1210 

      4 = 1211

 5 = 1236 رکن الدین فیروز شاہ

 6 = 1236 رضا سلطان

 7 = 1240 موزالدین بہرام شاہ

 8 = 1242 الدین مسعود شاہ

 9 = 1246 ناصر الدین محمود

 10 = 1266 غیاث الدین بلبن

 11 = 1286 

 مسجد کا ..12 = 1287 کبدان

 13 = 1290 شمس الدین کامرس

 عظیم سلطنت کا خاتمہ

 ( دور حکومت  -97 سال تقریباً)


 *خلجی سلطنت*


 1 = 1290 جلال الدین فیروز خلجی

 2 = 1292 علاؤالدین خلجی

 4 = 1316 شہاب الدین عمر شاہ

 5 = 1316 قطب الدین مبارک شاہ

 6 = 1320 ناصر الدین خسرو شاہ

 خلجی سلطنت کا خاتمہ

 ( دور حکومت - 30 سال تقریباً )


 *تغلق سلطنت*


 1 = 1320 غیاث الدین تغلق (پہلا)

 2 = 1325 محمد ابن تغلق (II)

 3 = 1351 فیروز شاہ تغلق

 4 = 1388 غیاث الدین تغلق (II)

 5 = 1389 ابوبکر شاہ

 6 = 1389 محمد تغلق (سوم)

 7 = 1394 .......... (I)

 8 = 1394 ناصر الدین شاہ (دوم)

 9 = 1395 نصرت شاہ

 10 = 1399 ناصر الدین محمد شاہ (II)

 11 = 1413 گورنمنٹ

 تغلق سلطنت کا خاتمہ

 (دور حکومت  -94 سال تقریباً)


 *سعید خاندان*


 1 = 1414 کھجور خان

 2 = 1421 معیز الدین مبارک شاہ (دوم)

 3 = 1434 محمد شاہ (IV)

 4 = 1445 اللہ عالم شاہ

 سلطنت سعید کا خاتمہ

 ( دور حکومت - 37 سال تقریباً )


 لودھی سلطنت


 1 = 1451 بہلول لودھی

 2 = 1489 لودھی (II)

 3 = 1517 ابراہیم لودھی

 لودھی سلطنت کا خاتمہ

 (دور حکومت  75 سال تقریباً)


مغلیہ سلطنت


 1 = 1526 ظہیر الدین بابر

 2 = 1530 ہمایوں

 مغلیہ سلطنت کا خاتمہ


 سوری سلطنت


 1 = 1539 شیر شاہ سوری

 2 = 1545 اسلام شاہ سوری

 3 = 1552 محمود شاہ سوری

 4 = 1553 ابراہیم سوری

 5 = 1554 پرویز شاہ سوری

 6 = 1554 مبارک خان سوری

 سوریائی سلطنت کا خاتمہ

 (دور حکومت  16 سال تقریباً)


 مغلیہ سلطنت پھر


 1 = 1555 ہمایوں (دوبارہ)

 2 = 1556 جلال الدین اکبر

 3 = 1605 جہانگیر

 4 = 1628 شاہ جہاں

 5 = 1659 اورنگ زیب

 6 = 1707 شاہ عالم (پہلا)

 7 = 1712 بہادر شاہ

 8 = 1713

 9 = 1719

 10 = 1719............

 11 = 1719............

 12 = 1719 محمود شاہ

 13 = 1748 احمد شاہ

 14 = 1754.................

 15 = 1759 شاہ عالم

 16 = 1806 اکبر شاہ

 17 = 1837 ظفر

 مغلیہ سلطنت کا خاتمہ

 (دور حکومت  315 سال تقریباً)


 *برطانوی راج*


 1 = 1858 لارڈ کنگ

 2 = 1862 لارڈ جیمز بروس ایلگن

 3 = 1864 لارڈ جے لارنس

 4 = 1869 لارڈ رچرڈ میو

 5 = 1872 لارڈ نارتھبک

 6 = 1876 لارڈ ایڈورڈ لاطینی

 7 = 1880 لارڈ جارج رپن

 8 = 1884 لارڈ ڈفرن

 9 = 1888 لارڈ ہینی لیسڈن

 10 = 1894 لارڈ وکٹر بروس ایلگن

 11 = 1899 لارڈ جارج کورجین

 12 = 1905 لارڈ گلبرٹ منٹو

 13 = 1910 لارڈ چارلس ہارج

 14 = 1916 لارڈ فریڈرک سے خزانہ تک

 15 = 1921 لارڈ رکس ایجاک رِڈگ

 16 = 1926 لارڈ ایڈورڈ ارون

 17 = 1931 لارڈ فرمین ویلڈن

 18 = 1936 لارڈ الیجینڈرا لنلتھگو

 19 = 1943 لارڈ آرچیبالڈ وہیل

 20 = 1947 لارڈ ماؤنٹ بیٹن


 برطانوی سامراج کا خاتمہ


 ہندوستان، وزرائے اعظم


 1 = 1947 جواہر لعل نہرو

 2 = 1964 گولزاری لال نندا

 3 = 1964 لال بہادر شاستری۔

 4 = 1966 گولزاری لال نندا

 5 = 1966 اندرا گاندھی

 6 = 1977 مرارجی ڈیسائی

 7 = 1979 چرن سنگھ

 8 = 1980 اندرا گاندھی

 9 = 1984 راجیو گاندھی

 10 = 1989 وی پی سنگھ

 11 = 1990 چندر شیکھر

 12 = 1991 P.V. نرسیما راؤ

 13 = 1992 اٹل بہاری واجپائی

 14 = 1996 دیوے گوڑا

 15 = 1997 I.K. گجرال

 16 = 1998 اٹل بہاری واجپائی

 17 = 2004 منموہن سنگھ

 18 = 2014 نریندر مودی


 1000 سال سے ایک مسلم سلطنت ہونے کے باوجود ہندوستان میں ہندو باقی ہیں۔ مسلم حکمرانوں نے ان کے ساتھ کبھی نا انصافی نہیں کی۔


 اور....


 ہندوؤں کو ابھی سو سال بھی نہیں ہوئے اور وہ مسلمانوں کو ختم کرنے کی بات کرتے ہیں!!

  یہ معلومات طلباء اور اساتذہ کو دی جانی چاہیے۔

جزاک اللہ خیراً


 اس پوسٹ کو سب کے ساتھ لازمی شیئر کریں۔ کیونکہ آج کل 90% لوگوں کو اس بارے میں کوئی علم نہیں ہے - * = (ہندوستان کی تاریخ)  = *

🥷🥷🥷

حضرت شعیب علیہ السلام HAZRAT SHOAIB A.ISLAM

 مرتب۔عبدالمجید سہروردی

حضرت شعیب علیہ السلام. 

شعیب علیہ السلام، اللہ تعالی کے بھیجے گئے ایک نبی تھے اور آپ موسیٰ علیہ السلام کے سسر بھی تھے۔ قرآن مجید کے مطابق شعیب علیہ السلام مدین کی طرف بھیجےگئے تھے۔ آپ کو اس وقت مدین بھیجے گئے تھے جب اہل مدین ناپ طول میں کمی کرتے تھے اور قسم قسم کے سرکشیوں او نافرمانیوں میں ڈوبے ہوئے تھے۔

شعیب میکیل کے بیٹے تھے اور میکیل یشجر کے اور یشجر مدین کے اور مدین ابراہیم ( علیہ السلام) کے بیٹے تھے۔


حضرت شعیب (علیہ السلام) تیسرے عرب نبی ہیں جن کا اسم گرامی قرآن کریم میں بیان ہوا ہے۔ اور عرب انبیاء یہ تھے: حضرات ہود، حضرت صالح، حضرت شعیب اور حضرت محمد (علی نبینا وآلہ و علیہم السلام)۔ آپ کا نام قرآن کریم میں گیارہ بار ذکر ہوا ہے۔ اللہ تعالی نے حضرت شعیب (علیہ السلام) کو مَدْیَن اور اَیکہ کے لوگوں کی طرف بھیجا تاکہ آنحضرت ان لوگوں کو خدائی دین اور وحدانیت کی طرف ہدایت کریں اور بت پرستی اور برائیوں سے نجات دیں۔ مدین ایسا شہر تھا جو سرزمین معان، شام کے قریب، حجاز کے آخری حصہ میں قرار پایا تھا۔ وہاں کے لوگ بت پرستی، برائی اور لین دین میں خیانت اور دھوکہ بازی کرتے تھے۔ ناپ تول میں کمی اور خرید و فروخت میں خیانت کرتے حتی پیسوں کے سکوں میں سونا چاندی کو کم کرنا، ان میں عام تھا اور دنیا سے محبت اور دولت اکٹھا کرنے کی وجہ سے دھوکہ اور فریب دیا کرتے تھے اور طرح طرح کی معاشرتی برائیوں کے عادی تھے۔ اَیکہ، مَدْیَن کے قریب آباد اور درختوں سے بھرا ہوا گاوں تھا، وہاں کے لوگ بھی مدین کے لوگوں کی طرح برائیوں میں ڈوبے ہوئے تھے۔

[مذکورہ برائیاں آج ہم میں موجود نہیں ہیں لیکن پھر بھی عذاب سے محفوظ ہیں تو صرف امت محمدﷺ کی وجہ سے]

اللہ تعالی نے مدین کے لوگوں میں سے حضرت شعیب (علیہ السلام) کو نبوت کے لئے مبعوث کیا تاکہ ان کو اور ان کے آس پاس والے لوگوں کو گناہوں سے نکال کر توحید کی طرف پکاریں۔ پروردگار عالم نے سورہ ہود میں حضرت شعیب (علیہ السلام) اور آنحضرتؑ کی قوم کے بارے میں فرمایا ہے:"وَإِلَى مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُواْ اللّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَهٍ غَيْرُهُ وَلاَ تَنقُصُواْ الْمِكْيَالَ وَالْمِيزَانَ إِنِّيَ أَرَاكُم بِخَيْرٍ وَإِنِّيَ أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ مُّحِيطٍ . وَيَا قَوْمِ أَوْفُواْ الْمِكْيَالَ وَالْمِيزَانَ بِالْقِسْطِ وَلاَ تَبْخَسُواْ النَّاسَ أَشْيَاءهُمْ وَلاَ تَعْثَوْاْ فِي الأَرْضِ مُفْسِدِينَ . بَقِيَّةُ اللّهِ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ وَمَا أَنَاْ عَلَيْكُم بِحَفِيظٍ"، "اور ہم نے مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب کو بھیجا تو انہوں نے کہا کہ اے قوم! اللہ کی عبادت کر کہ اس کے علاوہ تیرا کوئی خدا نہیں ہے اور خبردار ناپ تول میں کمی نہ کرنا کہ میں تمہیں بھلائی میں دیکھ رہا ہوں اور میں تمہارے بارے میں اس دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں جو سب کو احاطہ کرلے گا"۔ اور سورہ عنکبوت میں فرمایا ہے: "وَإِلَى مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا فَقَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَارْجُوا الْيَوْمَ الْآخِرَ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ"، "اور ہم نے مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب کو بھیجا تو انہوں نے کہا کہ لوگو اللہ کی عبادت کرو اور روزِ آخرت سے امیدیں وابستہ کرو اور خبردار زمین میں فساد نہ پھیلاتے پھرو"۔ اور نیز اصحاب الایکہ کے بارے میں سورہ شعراء میں فرمایا ہے: "كَذَّبَ أَصْحَابُ الْأَيْكَةِ الْمُرْسَلِينَ . إِذْ قَالَ لَهُمْ شُعَيْبٌ أَلَا تَتَّقُونَ. إِنِّي لَكُمْ رَسُولٌ أَمِينٌ. فَاتَّقُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُونِ"، " اور جنگل کے رہنے والوں نے بھی مرسلین کو جھٹلایا۔ جب ان سے شعیب نے کہا کہ تم خدا سے ڈرتے کیوں نہیں ہو۔ میں تمہارے لئے ایک امانتدار پیغمبر ہوں۔ لہذا اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو"۔

حضرت شعیب (علیہ السلام) نے لوگوں کو اللہ کے عذاب سے ڈرایا اور بشارت بھی دی اور جو عذاب قوم نوح، قوم ہود، قوم صالح اور قوم لوط پر آئے تھے، وہ بھی ان کو یاد دلوائے اور ان کے برے کاموں سے دستبردار ہونے کی نصیحت پر پوری کوشش کی، لیکن ان کا طغیان، کفر اور فسق ہی بڑھتا رہا۔ ان لوگوں میں سے سوائے چند افراد کے کوئی ایمان نہ لایا، بلکہ آنحضرت کو اذیت دی، مذاق اڑایا، دھمکی دی اور دیگر افراد کو آنحضرت کی فرمانبرداری سے منع کیا۔ جو راستہ بھی حضرت شعیب پر اختتام پذیر ہوتا تھا اس پر بیٹھ جاتے اور گزرنے والے لوگوں کو حضرت شعیب (علیہ السلام) کے پاس جانے سے ڈراتے اور جو آنحضرت پر ایمان لائے تھے انہیں اللہ کی راہ سے منع کرتے اور اللہ کے راستے کو ٹیڑھا دکھاتے اور کوشش کرتے کہ جتنا ہوسکے لوگوں میں اِس راستے کی نفرت پھیلائیں۔ اور پھر الزام لگانا شروع کردیا، کبھی آنحضرت کو جادوگر کہتے، کبھی كذّاب (جھوٹا) کہتے۔ انہوں نے آنحضرت کو دھمکی دی کہ اگر آپ تبلیغ سے دستبردار نہ ہوں تو ہم آپ کو سنگسار کریں اور دوبارہ آنحضرت اور آنحضرت پر ایمان لانے والوں کو دھمکی دی کہ ہم تمہیں شہر سے نکال دیں گے، مگر یہ کہ ہمارے بت پرستی کے دین پر آجاو۔ انہوں نے اپنے اس کردار کو باقی رکھا یہاں تک کہ آنحضرت ان کے ایمان لانے سے بالکل ناامید ہوگئے اور ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیا اور دعا کی اور اللہ تبارک و تعالی سے فتح طلب کی، عرض کیا: "رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَأَنتَ خَيْرُ الْفَاتِحِينَ"، "خدایا تو ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان حق سے فیصلہ فرمادے کہ تو بہترین فیصلہ کرنے والا ہے"۔ اس دعا کے بعد اللہ تعالی نے عذاب یوم الظلہ نازل کیا، جس دن سیاہ بادلوں نے ہر جگہ پر اندھیرا کردیا اور سیلاب بہانے والی بارش برس گئی۔ اس جھٹلانے والی قوم نے حضرت شعیب (علیہ السلام) کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ اگر واقعا سچے ہو تو ہمارے اوپر آسمان کا کوئی ٹکڑا نازل کردو، حضرت شعیب (علیہ السلام) نے کہا کہ ہمارا پروردگار تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے۔ قرآن کریم نے حضرت شعیب (علیہ السلام) کی قوم پر عذاب نازل ہونے کے بارے میں فرمایا ہے: "وَلَمَّا جَاءَ أَمْرُنَا نَجَّيْنَا شُعَيْبًا وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ بِرَحْمَةٍ مِّنَّا وَأَخَذَتِ الَّذِينَ ظَلَمُوا الصَّيْحَةُ فَأَصْبَحُوا فِي دِيَارِهِمْ جَاثِمِينَ . كَأَن لَّمْ يَغْنَوْا فِيهَا أَلَا بُعْدًا لِّمَدْيَنَ كَمَا بَعِدَتْ ثَمُودُکہ"، "اور جب ہمارا حکم (عذاب) آگیا تو ہم نے شعیب اور ان کے ساتھ ایمان لانے والوں کو اپنی رحمت سے بچالیا اور ظلم کرنے والوں کو ایک چنگھاڑ نے پکڑ لیا تو وہ اپنے دیار ہی میں الٹ پلٹ ہوگئے۔ جیسے کبھی یہاں بسے ہی نہیں تھے اور آگاہ ہوجاؤ کہ قوم مدین کے لئے ویسے ہی ہلاکت ہے جیسے قوم ثمود ہلاک ہوگئی تھی"۔

  کئی قوموں نے اپنے انبیاء کی نافرمانی کی اور مختلف طریقوں سے جھٹلاتے رہے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب انہوں نے اپنے اختیار سے گمراہی کے اندھیروں کو ہر طرف سے اپنے اوپر یوں لپیٹ لیا کہ ہدایت کی کسی کرن کے نظر آنے کا امکان نہ رہا اور ان کے سیدھے راستے پر آنے سے ہدایت کرنے والے نبی بالکل ناامید ہوگئے تو عذاب الہی نے ان کو گرفت میں لے لیا اور غضب پروردگار نے عذاب میں جکڑ دیا۔ عذاب کی صورت اور ان کا سیاہ انجام، مستقبل میں آنے والی اقوام کے لئے درس عبرت اور نشانِ خوف بن کر رہ گیا۔

HAZRAT SHOAIB ALAIH ISLAM حضرت شعیب علیہ السلام.

 مرتب۔عبدالمجید سہروردی

  HAZRAT SHOAIB ALAIH ISLAM  حضرت شعیب علیہ السلام. 

شعیب علیہ السلام، اللہ تعالی کے بھیجے گئے ایک نبی تھے اور آپ موسیٰ علیہ السلام کے سسر بھی تھے۔ قرآن مجید کے مطابق شعیب علیہ السلام مدین کی طرف بھیجےگئے تھے۔ آپ کو اس وقت مدین بھیجے گئے تھے جب اہل مدین ناپ طول میں کمی کرتے تھے اور قسم قسم کے سرکشیوں او نافرمانیوں میں ڈوبے ہوئے تھے۔

شعیب میکیل کے بیٹے تھے اور میکیل یشجر کے اور یشجر مدین کے اور مدین ابراہیم ( علیہ السلام) کے بیٹے تھے۔


حضرت شعیب (علیہ السلام) تیسرے عرب نبی ہیں جن کا اسم گرامی قرآن کریم میں بیان ہوا ہے۔ اور عرب انبیاء یہ تھے: حضرات ہود، حضرت صالح، حضرت شعیب اور حضرت محمد (علی نبینا وآلہ و علیہم السلام)۔ آپ کا نام قرآن کریم میں گیارہ بار ذکر ہوا ہے۔ اللہ تعالی نے حضرت شعیب (علیہ السلام) کو مَدْیَن اور اَیکہ کے لوگوں کی طرف بھیجا تاکہ آنحضرت ان لوگوں کو خدائی دین اور وحدانیت کی طرف ہدایت کریں اور بت پرستی اور برائیوں سے نجات دیں۔ مدین ایسا شہر تھا جو سرزمین معان، شام کے قریب، حجاز کے آخری حصہ میں قرار پایا تھا۔ وہاں کے لوگ بت پرستی، برائی اور لین دین میں خیانت اور دھوکہ بازی کرتے تھے۔ ناپ تول میں کمی اور خرید و فروخت میں خیانت کرتے حتی پیسوں کے سکوں میں سونا چاندی کو کم کرنا، ان میں عام تھا اور دنیا سے محبت اور دولت اکٹھا کرنے کی وجہ سے دھوکہ اور فریب دیا کرتے تھے اور طرح طرح کی معاشرتی برائیوں کے عادی تھے۔ اَیکہ، مَدْیَن کے قریب آباد اور درختوں سے بھرا ہوا گاوں تھا، وہاں کے لوگ بھی مدین کے لوگوں کی طرح برائیوں میں ڈوبے ہوئے تھے۔

[مذکورہ برائیاں آج ہم میں موجود نہیں ہیں لیکن پھر بھی عذاب سے محفوظ ہیں تو صرف امت محمدﷺ کی وجہ سے]

اللہ تعالی نے مدین کے لوگوں میں سے حضرت شعیب (علیہ السلام) کو نبوت کے لئے مبعوث کیا تاکہ ان کو اور ان کے آس پاس والے لوگوں کو گناہوں سے نکال کر توحید کی طرف پکاریں۔ پروردگار عالم نے سورہ ہود میں حضرت شعیب (علیہ السلام) اور آنحضرتؑ کی قوم کے بارے میں فرمایا ہے:"وَإِلَى مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُواْ اللّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَهٍ غَيْرُهُ وَلاَ تَنقُصُواْ الْمِكْيَالَ وَالْمِيزَانَ إِنِّيَ أَرَاكُم بِخَيْرٍ وَإِنِّيَ أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ مُّحِيطٍ . وَيَا قَوْمِ أَوْفُواْ الْمِكْيَالَ وَالْمِيزَانَ بِالْقِسْطِ وَلاَ تَبْخَسُواْ النَّاسَ أَشْيَاءهُمْ وَلاَ تَعْثَوْاْ فِي الأَرْضِ مُفْسِدِينَ . بَقِيَّةُ اللّهِ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ وَمَا أَنَاْ عَلَيْكُم بِحَفِيظٍ"، "اور ہم نے مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب کو بھیجا تو انہوں نے کہا کہ اے قوم! اللہ کی عبادت کر کہ اس کے علاوہ تیرا کوئی خدا نہیں ہے اور خبردار ناپ تول میں کمی نہ کرنا کہ میں تمہیں بھلائی میں دیکھ رہا ہوں اور میں تمہارے بارے میں اس دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں جو سب کو احاطہ کرلے گا"۔ اور سورہ عنکبوت میں فرمایا ہے: "وَإِلَى مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا فَقَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَارْجُوا الْيَوْمَ الْآخِرَ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ"، "اور ہم نے مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب کو بھیجا تو انہوں نے کہا کہ لوگو اللہ کی عبادت کرو اور روزِ آخرت سے امیدیں وابستہ کرو اور خبردار زمین میں فساد نہ پھیلاتے پھرو"۔ اور نیز اصحاب الایکہ کے بارے میں سورہ شعراء میں فرمایا ہے: "كَذَّبَ أَصْحَابُ الْأَيْكَةِ الْمُرْسَلِينَ . إِذْ قَالَ لَهُمْ شُعَيْبٌ أَلَا تَتَّقُونَ. إِنِّي لَكُمْ رَسُولٌ أَمِينٌ. فَاتَّقُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُونِ"، " اور جنگل کے رہنے والوں نے بھی مرسلین کو جھٹلایا۔ جب ان سے شعیب نے کہا کہ تم خدا سے ڈرتے کیوں نہیں ہو۔ میں تمہارے لئے ایک امانتدار پیغمبر ہوں۔ لہذا اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو"۔

حضرت شعیب (علیہ السلام) نے لوگوں کو اللہ کے عذاب سے ڈرایا اور بشارت بھی دی اور جو عذاب قوم نوح، قوم ہود، قوم صالح اور قوم لوط پر آئے تھے، وہ بھی ان کو یاد دلوائے اور ان کے برے کاموں سے دستبردار ہونے کی نصیحت پر پوری کوشش کی، لیکن ان کا طغیان، کفر اور فسق ہی بڑھتا رہا۔ ان لوگوں میں سے سوائے چند افراد کے کوئی ایمان نہ لایا، بلکہ آنحضرت کو اذیت دی، مذاق اڑایا، دھمکی دی اور دیگر افراد کو آنحضرت کی فرمانبرداری سے منع کیا۔ جو راستہ بھی حضرت شعیب پر اختتام پذیر ہوتا تھا اس پر بیٹھ جاتے اور گزرنے والے لوگوں کو حضرت شعیب (علیہ السلام) کے پاس جانے سے ڈراتے اور جو آنحضرت پر ایمان لائے تھے انہیں اللہ کی راہ سے منع کرتے اور اللہ کے راستے کو ٹیڑھا دکھاتے اور کوشش کرتے کہ جتنا ہوسکے لوگوں میں اِس راستے کی نفرت پھیلائیں۔ اور پھر الزام لگانا شروع کردیا، کبھی آنحضرت کو جادوگر کہتے، کبھی كذّاب (جھوٹا) کہتے۔ انہوں نے آنحضرت کو دھمکی دی کہ اگر آپ تبلیغ سے دستبردار نہ ہوں تو ہم آپ کو سنگسار کریں اور دوبارہ آنحضرت اور آنحضرت پر ایمان لانے والوں کو دھمکی دی کہ ہم تمہیں شہر سے نکال دیں گے، مگر یہ کہ ہمارے بت پرستی کے دین پر آجاو۔ انہوں نے اپنے اس کردار کو باقی رکھا یہاں تک کہ آنحضرت ان کے ایمان لانے سے بالکل ناامید ہوگئے اور ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیا اور دعا کی اور اللہ تبارک و تعالی سے فتح طلب کی، عرض کیا: "رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَأَنتَ خَيْرُ الْفَاتِحِينَ"، "خدایا تو ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان حق سے فیصلہ فرمادے کہ تو بہترین فیصلہ کرنے والا ہے"۔ اس دعا کے بعد اللہ تعالی نے عذاب یوم الظلہ نازل کیا، جس دن سیاہ بادلوں نے ہر جگہ پر اندھیرا کردیا اور سیلاب بہانے والی بارش برس گئی۔ اس جھٹلانے والی قوم نے حضرت شعیب (علیہ السلام) کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ اگر واقعا سچے ہو تو ہمارے اوپر آسمان کا کوئی ٹکڑا نازل کردو، حضرت شعیب (علیہ السلام) نے کہا کہ ہمارا پروردگار تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے۔ قرآن کریم نے حضرت شعیب (علیہ السلام) کی قوم پر عذاب نازل ہونے کے بارے میں فرمایا ہے: "وَلَمَّا جَاءَ أَمْرُنَا نَجَّيْنَا شُعَيْبًا وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ بِرَحْمَةٍ مِّنَّا وَأَخَذَتِ الَّذِينَ ظَلَمُوا الصَّيْحَةُ فَأَصْبَحُوا فِي دِيَارِهِمْ جَاثِمِينَ . كَأَن لَّمْ يَغْنَوْا فِيهَا أَلَا بُعْدًا لِّمَدْيَنَ كَمَا بَعِدَتْ ثَمُودُکہ"، "اور جب ہمارا حکم (عذاب) آگیا تو ہم نے شعیب اور ان کے ساتھ ایمان لانے والوں کو اپنی رحمت سے بچالیا اور ظلم کرنے والوں کو ایک چنگھاڑ نے پکڑ لیا تو وہ اپنے دیار ہی میں الٹ پلٹ ہوگئے۔ جیسے کبھی یہاں بسے ہی نہیں تھے اور آگاہ ہوجاؤ کہ قوم مدین کے لئے ویسے ہی ہلاکت ہے جیسے قوم ثمود ہلاک ہوگئی تھی"۔

  کئی قوموں نے اپنے انبیاء کی نافرمانی کی اور مختلف طریقوں سے جھٹلاتے رہے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب انہوں نے اپنے اختیار سے گمراہی کے اندھیروں کو ہر طرف سے اپنے اوپر یوں لپیٹ لیا کہ ہدایت کی کسی کرن کے نظر آنے کا امکان نہ رہا اور ان کے سیدھے راستے پر آنے سے ہدایت کرنے والے نبی بالکل ناامید ہوگئے تو عذاب الہی نے ان کو گرفت میں لے لیا اور غضب پروردگار نے عذاب میں جکڑ دیا۔ عذاب کی صورت اور ان کا سیاہ انجام، مستقبل میں آنے والی اقوام کے لئے درس عبرت اور نشانِ خوف بن کر رہ گیا۔

Sunday, March 6, 2022

MCQS ABOUT ISLAM

 1. عقیدہ کا لغوی معنی ہے؟

A).ایمان لانا 

B). یقین کرنا 

C). گرہ لگانا، پکا کرنا 

D). گرہ کھولنا، منتشر کرنا 

View Answer


Correct: C


2. اسلام کے بنیادی عقائد ـــــــــــــ ہیں؟

A). دو 

B). تین 

C). چار 

D). پانچ 

View Answer


Correct: D


3. اسلام کے بنیادی عقائد میں سے سب سے پہلا عقیدہ ـــــــــــ ہے؟

A). االلہ پر ایمان 

B). انبیاء پر ایمان 

C). الہامی کتب پر ایمان 

D). ایمان بالآخرۃ 

View Answer


Correct: A


4. لفظ توحید کا لغوی معنی ہے؟

A). اللہ سے تعلق قائم کرنا 

B). ایمان قبول کرنا 

C). ایک ماننا 

D). کوئی نہیں 

View Answer


Correct: C


5. توحید کی ــــــــــ بنیادی اقسام ہیں۔

A). دو 

B). تین 

C). چار 

D). پانچ 

View Answer


Correct: B


6. توحید کی بنیادی اقسام میں سے پہلی قسم ــــــــــــــــ ہے

A). توحید فی الذات 

B). توحید فی الصفات 

C). توحید فی العبادات

D). توحید فی الاستعانت

View Answer


Correct: A


7. قرانِ حکیم میں معبود کے لیئے کونسا لفظ استعمال کیا گیا ہے؟ 

A). اللہ 

B). ربّ 

C). الٰہ 

D). معبود ہی 

View Answer


Correct: C


8. -سب سے بڑا گناہ ــــــــ ہے

A). قتل 

B). شرک 

C). زنا 

D). بدعت 

View Answer

03 March 1943, resolution moved by GM Syed Ghulam Murtaza Shah in Sind Assembly in favour of Muslim State naming Pakistan

 3 مارچ 1943ع


14 اگست 1947ع کو ملک پاکستان وجود میں آی ، 

ان 75 برسوں میں ہم نے کیا کھویا، کیا پایا یہ ایک طویل موضوع اور بحث ہے، جس پر لگ بھگ تمام فاضل قلمکار اپنے خیالات کا وقتاً فوقتاً اظہار کرتے رہتے ہیں، مگر تاریخ قیام پاکستان میں کچھ ایسے سنگ ہائے میل بھی ہیں، جن کا ذکر قیام پاکستان کی "سرکاری تواریخ" میں نہیں کیا جاتا. ان اذکار میں سے سندھ کی دستور ساز اسمبلی کی جانب سے 1943ع میں منظور کی جانے والی اس قرارداد کا ذکر بھی شامل ہے، جو قیام پاکستان کا مطالبہ کرنے والی وہ واحد قرارداد ہے، جو مشترکہ ہندوستان کی کسی بھی دستور ساز اسمبلی نے پاس کی تھی اور یہ اعزاز صرف سندھ ہی کو حاصل ہوا. 


23 مارچ 1940ع کو منٹو پارک لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں منظور ہونے والی قرارداد لاہور (جس کا جشن ہم ہر سال مناتے ہیں) کے بعد اس بات کی ضرورت کو شدت سے محسوس کیا گیا کہ ہندوستان کی کوئی بھی قانون/دستور ساز اسمبلی ایک نئی آزاد خودمختار مسلمان ریاست کے حصول کے حق میں ایک قرارداد پاس کرے، تاکہ ایک دستور ساز اسمبلی کی جانب سے منظور ہونے والی قرارداد زیادہ وزندار ثابت ہو اور برطانوی راج پر مسلمانوں کی آزادی کے لیے پر اثر انداز میں زور ڈال سکے. 

اس ضمن میں 3 مارچ 1943ع کو سندھ کی دستور ساز اسمبلی میں اس وقت کے معزز رکن اسمبلی آل انڈیا مسلم لیگ سندھ کے سرگرم رہنما  جناب غلام مرتضیٰ سید (المعروف جی ایم سید) نے قرارداد پاکستان پیش کی، جو اکثریت رائے سے منظور ہوئی. اس قراداد کا متن سندھ اسمبلی کی مرکزی عمارت (پرانی عمارت) میں داخل ہوتے وقت تو ہمیں ایک بڑے بورڈ پر سنہرے حروف میں لکھا نظر آتا ہے، مگر ہم مطالعہ پاکستان میں اپنے نونہالوں اور نوجوانوں کو اس قرارداد کے بارے میں پڑھاتے نہیں ہیں. 


3 مارچ 1943ع کو منظور ہونے والی اس قرارداد پاکستان کا اصل متن انگریزی میں ہے، جس کا ترجمہ مندرجہ ذیل ہے:


 یہ ایوان (سندھ اسمبلی) سرکار کو سفارش کرتا ہے کہ قابل احترام وائسرائے ہند کے توسط سے بڑی سرکار

جنوری 17 سائیں غلام مرتضیٰ شاھ (جی ایم سید) کا جنم دن ہے 17th January Birth day of Ghualm Murtaza Shah GM SYED AND DECEMBER 1943

 دسمبر 1943ع فتح یابی کا جلوس

                                                  آج 17 جنوری سائیں غلام مرتضیٰ شاھ (جی ایم سید) کا جنم دن ہے, سائیں کی زندگی کا ہر پہلو شاندار اور با کردار رہا ہے بااصول اور سادگی پسند تہے, اس زندہ جاویداں شخصیت کا احاطہ اس چھوٹے سے مضمون میں  کرنا نا ممکن ہے, جی ایم سید علم ادب اور دانشور حلقوں میں نمایاں حیثیت رکھتے تہے, سندھی کتاب ‏جیسا میں نے دیکھا "جيئن ڏٺو آھي مون" اور سندھ شناسی "سنڌ جي ساڃاھ" یے دو ایسے کتاب ہیں جس میں مذاہب عالم اور ان کی تاریخ پر مبنی, کائناتِ, علم الانسان, تصور مذہب جیسے موضوعات پر وسیع مطالعے کا نچوڑ ہے,  دوسرا سندھ کی ساڃاہ، میں سندھ سے محبت کا اظہار ہے جس میں قدرتی وسائل جاگرافیائی خدوخال سماجی پہلو تعلیم روزگار کے مواقع اکانومکس اور اسٹیٹسک شامل ہیں یے منفرد کتاب جو ہمیشہ مسقبل کا تعین اور رہنمائی سمجھا جاتا ہے, ان کے علاوہ کافی مشہور کتاب "پیغام لطیف", "جنم گذاریم جن سان", "دیار دل داستان" بہترین تخلیقی ادب میں شمار کیے جاتے ہیں, 

سائیں فارسی پر کمال کثرت رکھتے تھے, ساتھ اردو ادب سے دلچسپی کی مثال انجمن ترقی اردو کے بنیادی ممبران میں سے تہے, 

کراچی کی ترقی میں جو تین بڑے نام گنے جاتے ہیں ان میں سے ایک نام جی ایم سید کا بہی آتا ہے, 

سائیں نے سیاسی حاصلات اور مایوسی دونوں دیکہی تہی, تحریک پاکستان میں اس کی لازوال خدمات رہیں,  23 مارچ 1940ع کو مسلم لیگ لاھور میں قراردادِ پاکستان منظور کی گئی لیکن اسے قانونی شکل دینے کیلئے کسی اسمبلی سے منظوری لینا ضروری ہوگیا تہا اور 3 مارچ 1943ع کو سندھ اسمبلی کا اجلاس بلا کر اسپیکر سندھ اسمبلی شیخ عبدالمجید سندھی کی زیر صدارت سائیں جی ایم سید نے قرارداد پاکستان منظور کرائی تہی جو غیر منقسم ہندوستان میں یے پہلی قرارداد تہی جو کسی قانون ساز اسمبلی نے پاس کی , اس خوشی میں دسمبر 1943ع میں قائداعظم محمد علی جناح اور سائیں جی ایم سید جو اس وقت سندھ مسلم لیگ کے صدر تہے سالانہ اجلاس اور جشن کا پروگرام منعقد کیا تہا اس وقت کی ایک کلپ جو ڈان نے بنائی تہی قابل دید ہے, 

اس تاریخی کلپ میں قائد اعظم اور جی ایم سید اجلاس میں کٹھے بیٹھے ہیں جبکہ اے ڈی سیز اور سیاستدان  غلام حسین ھدایت اللہ کا بیٹا ممتاز ھدایت اللہ اور حاجی عبداللہ ھارون کا بیٹا سعید ھارون پیچھے کھڑے ہیں, 

اسی طرح نہ چاہتے بھی پاکستان کی تاریخ جی ایم سید کے نام بغیر مکمل نہیں ہو سکتی,

                                                     جمال خان کالادی

HAZRAT USMA RA AND HAZRAT ABU BAKAR SIDDIQUE

 السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

جمعہ اسپیشل 

ذات النطاقین 

تپتی دوپہر اور دھوپ کی حدت سے مانو پوری وادی کملائی ہوئی تھی کہ یکایک دروازے پر مدھم سی دستک ہوئی، ایسی ملائم دستک، جیسے کوئی ہوا کا جھونکا کواڑ چھو کہ گزرا ہو۔ بابا جان بے تابی سے بیرونی دروازے کی جانب بڑھے۔  اندر آنے والی شخصیت انہیں دونوں جہانوں سے عزیز تر تھی۔ دونوں کے مابین کافی دیر راز و نیاز رہا۔ ان کے جاتے ہی بابا جان نے مجھے اور چھوٹی بہن کو 

زاد راہ تیار کرنے کہا۔ اوہ !!!  تو گویا بالآخر وہ لمحہ آن ہی پہنچا۔ پورے گھر میں ایک دبا دبا سا جوش اور چہل پہل تھی۔ رات آدھی گذر چکی تھی ، یہ آتی سردیوں کی رات تھی کہ بابا جان کے معزز دوست آئے ۔ بابا جان اور ان کے دوست لمبے اور پر خطر سفر کے لیے پوری طرح سے تیار تھے۔ کھانے کی پوٹلی باندھنے کے لیے ڈوری نہیں ملی تو میں نے جلدی سے اپنی کمر کا پٹکا کھولا اور اس کے دو ٹکڑے کر کے پوٹلی کا منہ مضبوطی سے باندھ دیا۔ وہ صفر کی ستائسویں شب تھی اور مدھم چاند کی روشنی میں دونوں معززین مکان کی پچھلی کھڑکی سے نکل کر مسفلہ کی گلیوں میں گم ہو گئے۔ ہم دونوں بہنیں کھڑکی سے لگیں ، اندھیرے میں گم ہوتے دونوں مسافروں کے لیے دعا گو تھیں۔ 


ستائیس صفر سنہ 14 نبوت مطابق 622 عیسوی  کی بارہ، تیرہ ستمبر کی درمیانی شب کو سفر پر نکلنے والے جلیل القدر اشخاص کوئی اور نہیں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے عزیز ترین دوست حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے ۔ وہ بابرکت سفر، ہجرت مدینہ تھا اور اس قصے کی راویہ حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہا تھیں۔

وہی خوش نصیب اسماء جنہوں نے اپنے کمر کے پٹکے کو پھاڑ کر دو ٹکڑے کیا تا کہ کھانے کی پوٹلی کا منہ باندھا جا سکے اور بدلے میں آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جنت کی نوید پائی اور لقب

"ذات النطاقین " سے سرفراز کی گئیں۔ 


حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ گھر سے نکل کر یمن جانے والے راستے کی راہ لی۔ اس راستے پر کوئی پانچ میل کا فیصلہ طے کر کے ثور کے پہاڑ پر پہنچے اور یہاں تین راتیں یعنی جمعہ، سنیچر اور اتوار چھپ کر گذاریں۔ اس دوران حضرت ابو بکر کے بیٹے عبداللہ بن ابی بکر بھی تہائی رات یہاں گزارتے اور مکے میں ہونے والی گفتگو اور سرگرمیوں سے دونوں معززین کو آگاہ کرتے اور مکہ میں قریش کے ساتھ یوں صبح کرتے، گویا انہوں نے رات یہیں گذاری ہو ۔ ادھر حضرت ابو بکر صدیق کے غلام حضرت عامر بن فہیرہ بکریاں چراتے رہتے اور جب رات کا ایک حصہ گذر جاتا تو بکریاں لے کر ان کے پاس پہنچ جاتے۔ اس طرح دونوں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ آسودہ ہو کر دودھ پی لیتے۔ حضرت عامر بن فہیرہ، حضرت عبداللہ بن ابی بکر کے مکے جانے کے بعد ان کے قدموں کے نشانات پر بکریاں ہانکتے تھے تاکہ ان کے قدموں کے نشانات مٹ جائیں۔ 

ہجرت کی رات گزر گئی، جب سحر ہوئی اور سرداران قریش نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بستر پر نہ پایا تو غصے سے بالکل پاگل ہو گئے۔ پہلے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو زد و کوب کیا پھر ابو جہل نے حالت طیش میں حضرت ابو بکر صدیق کا دروازہ دھڑ دھڑا دیا۔ گھر میں اٹھ ماہ کی حاملہ حضرت اسما بنت ابی بکر اور نا بینا دادا اور چھوٹی بہنوں کا ساتھ تھا ، بے بسی سی بے بسی کہ پورے مکہ میں کوئی ایک بھی حمایتی اور طرف دار نہیں۔ حضرت اسماء فطری طور پر نہایت جری و خاتون تھیں، سو بے خوفی سے دروازہ کھولا۔

 سامنے ابو جہل قہر کی تصویر بنا کھڑا تھا۔ گرج کر پوچھا " تیرا باپ اور اس کا دوست کہاں ہیں؟"

حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے تحمل سے جواب دیا کہ "مجھے نہیں معلوم۔"

یہ سننا تھا کہ اس بد بخت لحیم شحیم ابو جہل نے پوری قوت سے حضرت اسماء کے رخسار پر تھپڑ رسید کیا کہ ان کا کان زخمی ہو گیا اور کان کی بالی کہیں دور جا گری۔ 


حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا بیان کرتیں ہیں کہ جب میں مدینہ پہنچی تو میرے یہاں عبداللہ کی ولادت ہوئی۔ یہ بہت خوشی کا موقع تھا کیوں کہ یہودیوں نے یہ افواہ پھیلا رکھی تھی کہ ہم نے مکہ کے مہاجروں پر جادو کر کے ان کا سلسلہ نسل منقطع کر رکھا ہے، اس لیے اب ان کے یہاں کبھی کوئی اولاد پیدا نہیں ہو سکتی۔ یہ بھی عجیب اتفاق ہی تھا کہ اتنے عرصے میں مہاجرین میں سے کسی کے گھر بھی ولادت نہیں ہوئی تھی۔ عبداللہ بن زبیر کی پیدائش پر مدینہ نعرہ تکبیر سے گونج اٹھا تھا۔ حضرت عبداللہ کی پیدائش کے بعد، حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا رسول خدا کی خدمت میں پیش ہوئیں اور انہیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گود میں ڈال دیا۔ آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھجور طلب فرمائی اور اسے چبا کر عبداللہ کے منہ میں رکھی۔ چنانچہ، سب سے پہلی چیز جو عبداللہ کے پیٹ میں گئی وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا لعاب دہن تھا، پھر آپ نے حضرت عبداللہ بن زبیر کے لیے دعا فرمائی۔ یہ ہجرت کے بعد مدینہ میں پیدا ہونے پہلے مسلمان بچے تھے۔ 


نام۔ اسما، لقب ۔ ذات النطاقین۔

نسب۔ حضرت اسماء بنت ابو بکر صدیق بن ابو قحافہ عثمان بن عامر بن عمرو بن کعب بن سعد بن تیم بن مرہ بن لؤی القریش۔

حضرت اسماء بنت ابی بکر کی والدہ کا نام قتیلہ بنت عبدالعزی تھا اور ان سے حضرت ابو بکر کی دو اولادیں تھیں، حضرت اسماء بنت ابی بکر اور حضرت عبداللہ بن ابی بکر۔ قتیلہ چوں کہ مسلمان نہیں ہوئی تھیں سو ان سے نکاح باطل ہوا۔ حضرت اسماء کے دوسرے بھائی بہن ، حضرت عائشہ، حضرت ام کلثوم، حضرت محمد،  اور حضرت عبدالرحمان دوسری دو ماؤں سے تھے۔ 


حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہجرت مدینہ سے ستائیس سال قبل مکے میں پیدا ہوئیں۔ ان کے نانا عبدالعزی قریش کے سردار اور دادا ابو قحافہ جو فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہوئے معززین مکہ میں شمار ہوتے تھے۔ 

حضرت اسماء نے گیارہ سال کی عمر میں اسلام قبول کیا اور دائرہ اسلام میں داخل ہونے والوں میں ان کا نمبر پندھرواں ہے۔ ان کا شمار سابقون الاولون میں ہے۔ یہ شروع ہی سے راست گو، حق پرست اور نڈر تھیں۔ ان کا نکاح حضور صلی اللہ علیہ وآلہ کے کی پھوپھی، حضرت صفیہ کے بیٹے جو حواری رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  ہیں، یعنی، "حضرت زبیر بن العوام" سے ہوا۔ حضرت زبیر سے انہیں پانچ بیٹے اور تین بیٹیاں ہوئیں۔ حضرت عبداللہ بن زبیر، حضرت عروہ بن زبیر، حضرت منذر بن زبیر، حضرت مہاجر بن زبیر اور حضرت عاصم بن زبیر اور بیٹیاں حضرت خدیجہ بنت زبیر، حضرت ام الحسن بنت زبیر اور حضرت عائشہ بنت زبیر۔ 

حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں کہ جب میری زبیر سے شادی ہوئی تو وہ بہت تنگ دست اور مفلس تھے۔ ان کی کل متاع ایک گھوڑا اور اونٹ تھا۔ بچوں کی دیکھ بھال، گھر کے کام کاج، میں آٹا گوندھ لیتی تھی پر روٹیاں میری ہمسائی انصار عورتیں بنا دیا کرتیں تھیں، گھر کے لیے پانی بھر کر لانا، ڈول سینا اور اس کے ساتھ ساتھ گھوڑے اور اونٹ کا چارا پانی لانے کی ذمہ داری بھی مجھ پر تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زبیر کو مدینہ سے دو میل کی مسافت پر تھوڑی سی زمین عنایت کی تھی اور میں وہاں سے کجھور کی گٹھلیاں چن کر سر پر گٹھری رکھ کر لاتی اور ان گٹھلیوں کو کچل کر اونٹ کو دیتی۔ حضرت اسماء بیان کرتیں ہیں کہ "ایک دن میں سر پر گٹھلیوں کی گٹھری رکھ کر لا رہی تھی کہ راستے میں مجھے دیکھ کر حضور صلی اللہ علیہ وآلٰہ وسلم نے اپنے اونٹ کو بیٹھا دیا، مگر مجھے حجاب مانع تھا اور میں حضرت زبیر کی غیرت سے بھی واقف تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے گریز کو محسوس کر لیا اور آگے روانہ ہو گئے۔" جب حضرت اسماء نے یہ روداد حضرت زبیر کو سنائی تو انہوں نے جواباً کہا کہ مجھے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تو غیرت نہیں مگر مجھے تمہاری اس کڑی مشقت کا دکھ ضرور ہے۔  جب حضرت ابوبکر  صدیق نے حضرت اسماء کو ایک غلام تحفہ میں دیا تو ان کی زندگی خاصی حد تک آسان ہو گئی کہ وہ غلام باہر کے کاموں کے ساتھ ساتھ گھوڑے اور اونٹ کی دیکھ رکھ کرنے لگا۔ 

حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک لمبا عرصہ ساتھ گذارا، ان کے آٹھ بچے ہوئے لیکن حضرت زبیر کے مزاج کی تیزی کے باعث آئے دن کے گھریلو تنازعات اتنا بڑھے کے بات طلاق پر منتج ہوئی۔ حضرت زبیر سے طلاق کے باوجود وہ ہمیشہ ان کا ذکر نہایت احترام سے کرتی تھیں۔ طلاق کے بعد حضرت اسماء اپنے بیٹے حضرت عبداللہ بن زبیر کے ساتھ رہنے لگیں۔  


جب امیر معاویہ نے اپنی زندگی میں یزید کو خلیفہ نامزد کیا تو حضرت عبداللہ بن زبیر نے اس فیصلے کی شدت سے مخالفت کی۔ حضرت امیر معاویہ کی وفات کے بعد جب یزید کے قاصد ، حضرت عبداللہ بن زبیر سے بیعت لینے آئےتو یہ ایک دن کی مہلت لے کر مدینہ سے نکل کر مکہ چلے آئے اور حدود حرم میں پناہ لی۔ ان کی پیہم کوششوں کے نتیجے کے طور پر اہل حجاز نے اموی خلافت کے خلاف علم بغاوت بلند کر دیا۔ حضرت عبداللہ بن زبیر نے سات برس حکومت کی۔ یزید نے مسلم بن عقبہ کو حضرت عبداللہ بن زبیر کے قتل کے احکامات دئیے اور مسلم بن عقبہ مدینہ میں لشکر کشی کر کے مکے کی جانب بڑھا لیکن ابوا کے مقام پر اجل کا شکار ہوا۔ اس کے بعد حصین بن نمیر نے فوج کی قیادت سنبھالی اور مکہ پر حملہ آور ہوا اور شدید سنگ باری کی جس کی زد میں کعبہ بھی آیا۔ ابن نمیر نے چونسٹھ دن تک مکہ کا محاصرہ جاری رکھا، جب اسے یزید کی موت کی اطلاع ملی تو اس نے حضرت عبداللہ بن زبیر کو خلافت کی پیشکش کی اور ان کے ہاتھ پر بیعت کرنے کو تیار بھی، مگر حضرت عبداللہ بن زبیر نے انکار کیا اور کہا کہ " جب تک میں ایک ایک حجازی کے بدلے دس دس شامیوں کو قتل نہ کر لوں، کچھ نہیں ہو سکتا" .

یوں اس جذباتی فیصلے سے ایک بہترین موقع ہاتھوں سے نکل گیا۔

عبدالملک بن مروان مسند حکومت پر بیٹھا تو اس نے شقی القلب اور سفاک ترین جرنیل حجاج بن یوسف ثقفی کو ایک بڑی فوج کے ساتھ مکہ پر حملہ آور ہونے کا حکم دیا۔ حجاج نے مکہ پہنچتے ہی مکہ کا محاصرہ کر لیا اور کعبہ پر سنگ باری بھی کی۔ طویل محاصرے کے باعث مکہ میں قحط سالی ہو گئ۔ حضرت عبداللہ بن زبیر نے جم کر بے جگری سے مقابلہ کیا مگر کب تک؟ بیشتر ساتھی شہید ہوئے اور کئی حالات کی سختیوں سے گھبرا کر ان کا ساتھ چھوڑتے چلے گئے، شکست اب یقینی تھی سو حضرت عبداللہ ماں سے مشورے کے طالب ہوئے۔ حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا 

" اے میرے لخت جگر !! موت کے خوف سے غلامی کی ذلت قبول کرنا جرآت مند مومن کا شیوہ نہیں۔ حق و صداقت میں شہادت فائق۔ اگر تم حق پر ہو تو لڑتے ہوئے شہادت کے عظیم مرتبے پر فائز ہو جاؤ اور اگر یہ سب دنیا کے لیے تھا، تو تم نے اپنی اور اپنے ساتھیوں کی عاقبت خراب کر لی۔ میری تمنا ہے کہ تم راہ حق میں شہید ہو جاؤ، میں صبر کر لوں گی اور اگر کامیاب ہو گئے تو یہ کامیابی میری خوشی کا باعث ہوگی"

آخری بار ماں نے بیٹے کو مقتل میں بھیجنے سے پہلے گلے لگایا تو انہیں زرہ کی کڑیاں چبھیں، 

پوچھا یہ زرہ کیوں؟

حضرت عبداللہ بن زبیر نے جواب دیا کہ اطمینان کے لیے۔ حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ" بیٹا ! شہادت کے آرزو مند دنیاوی اطمینان سے سے بےنیاز ہوتے ہیں۔"

حضرت عبداللہ بن زبیر نے اپنی شہادت کے بعد اپنے لاش کے مثلہ کیے جانے کے خدشے کا اظہار کیا تو حضرت اسماء نے کہا " جان ام !! بکری جب زبح ہو جاتی ہے تو اسے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کے اس کی کھال اترتی ہے یا اس کی بوٹی کا قیمہ بنتا ہے۔ اصل چیز روح ہے جو اپنے مقام پر پہنچ چکی ہوتی ہے۔ "

بہادر ماں سے رخصت ہو کر حضرت عبداللہ بن زبیر نے کفن پہنا اور اپنی مٹھی بھر جان نثاروں کو لے کر مخالف فوج پر ٹوٹ پڑے اور جلد ہی شہادت کے رتبے پر فائز ہوئے۔ ان کا سر قلم کر کے حجاج کو پیش کیا گیا اور جسد خاکی کو بیت اللہ کے پرنالے پر لٹکا دیا گیا، ایک روایت کے مطابق حجون کے بازار میں لٹکایا گیا۔

جب تین دن گذر گئے تو نا بینا ماں بیٹے سے ملنے آئیں اور شہید اسلام کی الٹی لٹکی ہوئی لاش کو شہادت پر مبارک باد دی اور کہا کہ " کیا اس سوار کے گھوڑے سے اترنے کا وقت ابھی نہیں آیا ؟"

حجاج نے حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کہا کہ دیکھو میں نے دشمن خدا کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ 

حضرت اسماء نے جواب دیا کہ تو نے اس کی دنیا بگاڑی اور اس نے تیری عاقبت خراب کر دی۔ پھر حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنی روایتی بے جگری سے اس ظالم کو مخاطب کیا اور فرمایا کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا تھا کہ " بنو ثقیف سے ایک کذاب اور ظالم پیدا ہو گا۔ کذاب مختار ثقفی کو میں دیکھ چکی اور ظالم تو ہے۔ "

حجاج نے یہ حدیث سنی تو خاموشی سے وآپس چلا گیا۔

چند دن بعد عبدالملک نے لاش اتروانے کا حکم دیا تو حجاج نے لاش اتروا کر یہودیوں کے قبرستان میں پھنکوا دی۔ 

حضرت عبداللہ بن زبیر کی شہادت پہلی اکتوبر سنہ 692 میں بہتر سال کی عمر میں ہوئی۔ حضرت اسماء نے انہیں تکریم کے ساتھ مکہ کے قبرستان میں دفن کروایا اور پھر اس سانحے کے دس یا بیس دن کے بعد  جمادی الاول 73 ہجری میں  سو سال کی عمر میں دار فانی کو الوداع کہا اور مکہ مکرمہ کے قبرستان میں دونوں ماں بیٹے کی قبریں برابر برابر ہیں۔ 

انا للہ وانا الیہ راجعون 


حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہا نہایت پر اعتماد، نڈر، بے خوف اور دل گردہ والی خاتون تھیں ، جو کلمہ حق کسی بھی متکبر چاہیے وہ ابوجہل جیسا فرعون امت ہو یا حجاج جیسا شقی القلب، کسی کے سامنے کہنے سے لمحے بھر کے لیے بھی نہیں جھجکتں تھیں۔ 

پہلے پہل غربت کے باعث، حضرت اسماء جو کچھ صدقہء خیرات کرتیں، ناپ تول کر کرتی تھیں۔ انہیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس روش سے منع فرمایا اور کہا کہ پھر اللہ تعالیٰ تمہیں بھی ناپ کر دے گا۔ اس فرمان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد ، باوجود مفلسی کے وہ کھل کر صدقہ خیرات کرنے لگیں اور اس کے ساتھ ہی تنگ دستی بھی جاتی رہی۔ 

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنی وفات کے وقت ترکہ میں ایک جنگل چھوڑا تھا جو حضرت اسماء کے حصے میں آیا تھا۔ اس جنگل کو ایک لاکھ درہم میں فروخت کر کے کل رقم ضرورت مند عزیزوں میں تقسیم کر دی۔

ایک دفعہ ان کی مشرکہ ماں ان سے ملنے مدینہ آئیں تو حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت فرمایا کہ مشرک ماں کے ساتھ کیسا معاملہ کروں؟

رحمت العالمین کا ارشاد مبارک تھا کہ اپنی ماں کے ساتھ صلہ رحمی کرو۔ 

حضرت اسماء نے کئی حج کئے، پہلا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اور پھر حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ساتھ بھی حج کیا۔ حج کے زمانے میں ان کا معمول تھا کہ حاجیوں کو مناسک حج پر درس دیا کرتیں۔

حضرت اسماء بیمار پڑتیں تو اپنے تمام غلام آزاد کر دیتی تھیں۔ حضرت اسماء کے تقدس کا عام چرچا تھا اور لوگ ان سے دعا کروانے کے لیے آیا کرتے تھے۔۔ جب کوئی عورت بخار میں مبتلا ہوتی اور دعا کے لیے آتی تو اس کے سینہ پر پانی چھڑکتیں ور کہتیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ بخار کو پانی سے ٹھنڈا کرو۔ انہوں نے کافی ساری روایات رقیہ، حجاب، حیض اور عورتوں سے متعلق مسائل پر بیان کیں ہیں۔ 

حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہا بے انتہا نڈر خاتون تھیں اور انہوں نے اپنے میاں اور اپنے چودہ سالہ بیٹے حضرت عبداللہ کے ساتھ جنگ یرموک میں حصہ لیا تھا۔ حضرت سعد بن عاص کے دور میں، جب مدینہ میں 

بہت بد امنی پھیل گئی تو وہ اپنے سرہانے خنجر رکھ کر سویا کرتی تھیں تا کہ ڈاکوؤں اور چوروں سے مقابلہ کر سکیں۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے چھپن احادیث روایت کیں ہیں جو صحیحین اور سنین میں موجود ہیں۔ راویوں میں حضرت عبداللہ، حضرت عروہ، حضرت عباد بن عبداللہ، حضرت عبداللہ بن عروہ ، حضرت فاطمہ بنت المنذر، حضرت عبادہ بن حمزہ بن عبداللہ بن زبیر، حضرت ابن عباس، حضرت صفیہ بنت شیبہ ابن ابی ملیکہ اور حضرت وہب بن کیسان شامل ہیں۔ 


حوالاجات

صحیح البخاری 3905

سیرت ابن اسحاق صفحہ 344

صحیح البخاری 3909

صحیح البخاری 5224

الرحیق المکتوم

لیکچر شیخ عمر سلیمان 


از قلم

شاہین کمال

کیلگری

Saturday, January 1, 2022

The conquest of Mecca

The conquest of Mecca (Arabicفتح مكة fatḥ makkah) was the capture of the town of Mecca by Muslims led by the Islamic prophet Muhammad in December 629 or January 630 AD[3][4] (Julian), 10–20 Ramadan, 8 AH.[3] The conquest marked the end of the wars between the followers of Muhammad and the Quraysh tribe.

Ancient sources vary as to the dates of these events.

  • The date Muhammad set out for Mecca is variously given as 2, 6 or 10 Ramadan 8 AH.[3]
  • The date Muhammad entered Mecca is variously given as 10, 17/18, 19 or 20 Ramadan 8 AH.[3]

The conversion of these dates to the Julian calendar depends on what assumptions are made about the calendar in use in Mecca at the time. For example, 18 Ramadan 8 AH may be converted to 11 December 629 AD, 10 or 11 January 630, or 6 June 630 AD

In 628, the Meccan tribe of Quraysh and the Muslim community in Medina signed

Thursday, December 30, 2021

Hazrat Muhammad Rasool Allah Salelahu Alaih e wa e lehi wasalam ﺳﯿﺮﺕ ﺍﻟﻨﺒﯽ ﷺ 63 ﺳﺎﻝ ﮐﯽ ﻧﺴﺒﺖ ﺳﮯ 63 ﺍﮨﻢ ﺳﻮﺍﻻﺕ

 ﺳﯿﺮﺕ ﺍﻟﻨﺒﯽ ﷺ 63 ﺳﺎﻝ ﮐﯽ ﻧﺴﺒﺖ ﺳﮯ 63 ﺍﮨﻢ ﺳﻮﺍﻻﺕ


‏( 1 ‏) ﮨﻤﺎﺭﮮ ﭘﯿﺎﺭﮮ ﻧﺒﯽ ﷺ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﮐﯿﺎﮨﮯ؟

ﺟﻮﺍﺏ : ﺣﻀﺮﺕ ﻣﺤﻤﺪﷺ


‏( 2 ‏) ﮨﻤﺎﺭﮮ ﭘﯿﺎﺭﮮ ﻧﺒﯽﷺ ﮐﮯ ﻭﺍﻟﺪ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ؟

ﺟﻮﺍﺏ : ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ


‏( 3 ‏) ﮨﻤﺎﺭﮮ ﭘﯿﺎﺭﮮ ﻧﺒﯽﷺ ﮐﮯ ﺩﺍﺩﺍ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ؟

ﺟﻮﺍﺏ : ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺒﺪﺍﻟﻤﻄﻠﺐ


‏( 4 ‏) ﮨﻤﺎﺭﮮ ﭘﯿﺎﺭﮮ ﻧﺒﯽﷺ ﮐﯽ ﺩﺍﺩﯼ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ؟

ﺟﻮﺍﺏ : ﺣﻀﺮﺕ ﻓﺎﻃﻤﮧ ﺑﻨﺖ ﻋﻤﺮ ﻣﺨﺰﻭﻣﯿﮧ


‏( 5 ‏) ﮨﻤﺎﺭﮮ ﭘﯿﺎﺭﮮ ﻧﺒﯽﷺ ﮐﮯ ﺟﺪﺍﻣﺠﺪ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ؟

ﺟﻮﺍﺏ : ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺳﻤﺎﻋﯿﻞ ﺑﻦ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﺮﺍﮨﯿﻢ ﻋﻠﯿﮩﻤﺎ ﺍﻟﺴﻼﻡ


‏( 6 ‏) ﮨﻤﺎﺭﮮ ﭘﯿﺎﺭﮮ ﻧﺒﯽﷺ ﮐﯽ ﻭﺍﻟﺪﮦ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ؟

ﺟﻮﺍﺏ : ﺣﻀﺮﺕ ﺁﻣﻨﮧ


‏( 7 ‏) ﮨﻤﺎﺭﮮ ﭘﯿﺎﺭﮮ ﻧﺒﯽﷺ ﮐﮯ ﻧﺎﻧﺎﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ؟

ﺟﻮﺍﺏ : ﺣﻀﺮﺕ ﻭﮨﺐ


‏( 8 ‏) ﮨﻤﺎﺭﮮ ﭘﯿﺎﺭﮮ ﻧﺒﯽﷺ ﮐﯽ ﻧﺎﻧﯽ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ؟

ﺟﻮﺍﺏ : ﺣﻀﺮﺕ ﺑﺮﮦ ﺑﻨﺖ ﻋﺒﺪﺍﻟﻌﺰﯼ


‏( 9 ‏) ﮨﻤﺎﺭﮮ ﭘﯿﺎﺭﮮ ﻧﺒﯽﷺ ﮐﮯ ﺧﺎﻧﺪﺍﻥ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ؟

ﺟﻮﺍﺏ : ﻗﺮﯾﺶ ﮐﯽ ﺷﺎﺥ ﺑﻨﻮﮨﺎﺷﻢ


‏( 10 ‏) ﮨﻤﺎﺭﮮ ﭘﯿﺎﺭﮮ ﻧﺒﯽ ﷺ ﮐﯽ ﻭﻻﺩﺕ ﮐﺐ ﮨﻮﺋﯽ؟

ﺟﻮﺍﺏ : ﭘﯿﺮ 12 ﺭﺑﯿﻊ ﺍﻻﻭﻝ ﮐﮯ ﺩﻥ۔


‏( 11 ‏) ﮨﻤﺎﺭﮮ ﭘﯿﺎﺭﮮ ﻧﺒﯽ ﷺ ﮐﯽ ﺭﺿﺎﻋﯽ ﻭﺍﻟﺪﮦ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ؟

ﺟﻮﺍﺏ : ﺣﻀﺮﺕ ﺣﻠﯿﻤﮧ ﺳﻌﺪﯾﮧ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮩﺎ۔


‏( 12 ‏) ﮨﻤﺎﺭﮮ ﭘﯿﺎﺭﮮ ﻧﺒﯽﷺ ﮐﮯ ﻭﺍﻟﺪ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻘﺎﻝ ﮐﺐ ﮨﻮﺍ؟

Monday, December 28, 2020

NAAT SHARIF, NABI KA LAB PE JO ZIKAR AYA AYA KAMAL AYA


 

NAAT , TU KUJAA MAN KUJA, YA REHMATUL LIL ALAMEEN


 

ISLAM, HADITH AND SUNAH, PILLARS OF ISLAM

 Islam is an Abrahamic-monotheistic religion based upon the teachings of Prophet Muhammad ibn Abdullah (l. 570-632 CE, after whose name Muslims traditionally add “peace be upon him” or, in writing, PBUH). Alongside Christianity and Judaism, it is a continuation of the teachings of Abraham (featured in both Jewish and Christian scriptures, considered a prophet in Islam, after whose name Muslims say, “peace be upon him” as well), although it does differ in some respects from both of these. The adherents of Islam are referred to as Muslims, of which there are around two billion in the world today, second only to Christians in number.

Taking roots from humble beginnings in the Arabian Peninsula, the followers of Muhammad managed to conquer the superpowers of the time: the Sassanian Empire and the Byzantine Empire. At its peak (750 CE), the Islamic Empire stretched all the way between parts of modern-day Pakistan in the east and to Morocco and the Iberian Peninsula in the west. Although initially spread by conquest, Islam would later flourish through trade to expand beyond its initial borders and around the world. In the present day, it is the world’s fastest-growing religion.

The Prophet’s Mission

The Prophet – Muhammad ibn Abdullah – was born in 570 CE. He was a member of the Qurayshite clan of Banu Hashim, a highly respected faction despite their declining wealth. Orphaned at an early age, he was raised by his uncle Abu Talib, who is said to have loved him even more than his own sons. Muhammad became a trader and was renowned for his honesty (as it was a rare trait in Arabia in those days), and this honesty attracted the attention of a wealthy widow named Khadija who sent a marriage proposal, which he accepted, although she was 15 years older than him (he was 25 years of age at the time). Khadija’s support for Muhammad was instrumental in the Prophet pursuing his mission.

Sunday, July 5, 2020

PROPHET' S BIOGRAPHY M U H A M M A D (S. A. W)

PROPHET' S   BIOGRAPHY 
M U H A M M A D (S. A. W)  

▪Name :  Muhammad (SAW)
▪Father :  Abdullah
▪Mother : Aminah
▪Date of Birth :
     12th Rabi Al - Awwal
▪Date of Death :
     08 Jun 632 11 after Hijra
▪Age : 63 yrs
▪Place of Birth :  Makkah
▪Place of Death : Madinah
▪Residence :
    Makkah then moved to Madina
▪Profession :
    Businessman , then a Prophet
▪Age :                       63 years
▪Lived in Makkah : 50 years
▪Nabowat Age :      40 years
▪Lived in Madinah ; 13 years
▪Yrs of Preaching :  23 years

Important Islamic Dates

Important Islamic Dates 
●Completion of Quran =22 yrs, 5 months and 14 days.
●Ghazwa e Badar=2 hijari 
●Ghazwa Uhod =3hijari
●Ghazwa e Khandak =5 hijari 
●Ghazwa e Khyber =7 hijari 
●Ghazwa e hunain =8 hijari
● Ghazwa e motta =8 hijari
●Conquest of makkhah=8 hijari 
Jung e yamama =8 hijari ●Ghazwa e Tabook =9 hijari 
●Bait- ul -maqdas changed to Bait Ullah Shareef=2 hijari 
●Azan become compulsory =2 hijari ●zakat =2 hijari 
●Parda/nqab ka hukam=4 hijari 
●Bait e Rizwan/Bait e shajar =6 hijari 
●Sulah hudaibia =6 hijari 
●sharab was prohibited =6 hijari 
●Hajj ki faziat =9 hijari 
●Khutba hijjat-ul-wida =10 hijari 
●Interest was prohibited =10 hijari 
●1st hijarat e Habsha=5 nabwi 
●2nd hijarat e Habsha =7 nabwi 
●Maqat,at e Quraish /shab e abi talib=7 nabwi to 10 nabwi 
●Aa, am al hazan year =10 nabwi 
●Namaz ki farziat=12 nabwi 
●waqi,a-e-ma,raj =12 nabwi 
●Namaz e janaza ki farziat =2 hijari 
●Roza ki farziat =13 nabwi
Tayamum ka hukam =4 hijari....

Thursday, June 18, 2020

Alī ibn Abī Ṭālib cousin and son-in-law of Muhammad, the Prophet of Islam

ʿAlī, in full ʿAlī ibn Abī Ṭālib, (born c. 600, Mecca, Arabia [now in Saudi Arabia]—died January 661, Kufa, Iraq), cousin and son-in-law of Muhammad, the Prophet of Islam, and fourth of the “rightly guided” (rāshidūncaliphs, as the first four successors of Muhammad are called. Reigning from 656 to 661, he was the first imam (leader) of Shiʿism in all its forms. The question of his right to the caliphate (the political-religious structure comprising the community of Muslims and its territories that emerged after the death of Muhammad) resulted in the only major split in Islam, into the Sunni and Shiʿi branches.

Alī Ibn Abī Ṭālib Names And Sources

Alī Ibn Abī Ṭālib Names And Sources

ʿAlī is known within the Islamic tradition by a number of titles, some reflecting his personal qualities and others derived from particular episodes of his life. They include Abū al-Ḥasan (“Father of Ḥasan” [the name of his oldest son]), Abū Turāb (“Father of Dust”), Murtaḍā (“One Who Is Chosen and Contented”), Asad Allāh (“Lion of God”), Ḥaydar (“Lion”), and—specifically among the Shiʿah—Amīr al-Muʾminīn (“Prince of the Faithful”) and Mawlāy-i Muttaqiyān (“Master of the God-Fearing”). The title Abū Turāb, for example, recalls the time when, according to tradition, Muhammad entered a mosque and, seeing ʿAlī sleeping there full of dust, said to him, “O father of dust, get up.”                                                                                                                                             Except for Muhammad, there is no one in Islamic history about whom as much has been written in Islamic languages as ʿAlī. The primary sources for scholarship on the life of ʿAlī are the Hadith and the sīrah literature (accounts of the Prophet Muhammad’s life), as well as other biographical sources and texts of early Islamic history. The extensive secondary sources include, in addition to works by Sunni and Shiʿi Muslims, writings by Christian Arabs, Hindus, and other non-Muslims from the Middle East and Asia and a few works by modern Western scholars. However, many of the early Islamic sources are coloured to some extent by a bias, whether positive or negative, toward ʿAlī.

Alī Ibn Abī Ṭālib,LIFE EARLY YEARS

Alī ibn Abī Ṭālib,LIFE 

EARLY YEARS

ʿAlī’s life, as recorded especially in the Sunni and Shiʿi texts, can be divided into several distinct periods separated by major events. The son of Abū Ṭālib and his wife Fāṭimah bint Asad, ʿAlī was born, according to most older historical sources, on the 13th day of the lunar month of Rajab, about the year 600, in Mecca. Many sources, especially Shiʿi ones, record that he was the only person born in the sacred sanctuary of the Kaʿbah, a shrine said to have been built by Abraham and later dedicated to the traditional gods of the Arabs, which became the central shrine of Islam after the advent of the religion and the removal of all idols from it. ʿAlī was related to the Prophet through his father and mother: Abū Ṭālib was Muhammad’s uncle and became his guardian when the boy’s father died, and Fāṭimah bint Asad acted as the Prophet’s mother after his biological mother died. When ʿAlī was five years old, his father became impoverished, and ʿAlī was taken in and raised by Muhammad and his wife Khadījah. At age 10 ʿAlī became, according to tradition, the second person after Khadījah to accept Islam. Although ʿAlī’s father refused to give up his devotion to traditional Arabic polytheism, he accepted ʿAlī’s decision, telling him, “Since he [the Prophet] leads you only to righteousness, follow him and keep close to him.”

When you look at various woman