Sunday, March 6, 2022

03 March 1943, resolution moved by GM Syed Ghulam Murtaza Shah in Sind Assembly in favour of Muslim State naming Pakistan

 3 مارچ 1943ع


14 اگست 1947ع کو ملک پاکستان وجود میں آی ، 

ان 75 برسوں میں ہم نے کیا کھویا، کیا پایا یہ ایک طویل موضوع اور بحث ہے، جس پر لگ بھگ تمام فاضل قلمکار اپنے خیالات کا وقتاً فوقتاً اظہار کرتے رہتے ہیں، مگر تاریخ قیام پاکستان میں کچھ ایسے سنگ ہائے میل بھی ہیں، جن کا ذکر قیام پاکستان کی "سرکاری تواریخ" میں نہیں کیا جاتا. ان اذکار میں سے سندھ کی دستور ساز اسمبلی کی جانب سے 1943ع میں منظور کی جانے والی اس قرارداد کا ذکر بھی شامل ہے، جو قیام پاکستان کا مطالبہ کرنے والی وہ واحد قرارداد ہے، جو مشترکہ ہندوستان کی کسی بھی دستور ساز اسمبلی نے پاس کی تھی اور یہ اعزاز صرف سندھ ہی کو حاصل ہوا. 


23 مارچ 1940ع کو منٹو پارک لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں منظور ہونے والی قرارداد لاہور (جس کا جشن ہم ہر سال مناتے ہیں) کے بعد اس بات کی ضرورت کو شدت سے محسوس کیا گیا کہ ہندوستان کی کوئی بھی قانون/دستور ساز اسمبلی ایک نئی آزاد خودمختار مسلمان ریاست کے حصول کے حق میں ایک قرارداد پاس کرے، تاکہ ایک دستور ساز اسمبلی کی جانب سے منظور ہونے والی قرارداد زیادہ وزندار ثابت ہو اور برطانوی راج پر مسلمانوں کی آزادی کے لیے پر اثر انداز میں زور ڈال سکے. 

اس ضمن میں 3 مارچ 1943ع کو سندھ کی دستور ساز اسمبلی میں اس وقت کے معزز رکن اسمبلی آل انڈیا مسلم لیگ سندھ کے سرگرم رہنما  جناب غلام مرتضیٰ سید (المعروف جی ایم سید) نے قرارداد پاکستان پیش کی، جو اکثریت رائے سے منظور ہوئی. اس قراداد کا متن سندھ اسمبلی کی مرکزی عمارت (پرانی عمارت) میں داخل ہوتے وقت تو ہمیں ایک بڑے بورڈ پر سنہرے حروف میں لکھا نظر آتا ہے، مگر ہم مطالعہ پاکستان میں اپنے نونہالوں اور نوجوانوں کو اس قرارداد کے بارے میں پڑھاتے نہیں ہیں. 


3 مارچ 1943ع کو منظور ہونے والی اس قرارداد پاکستان کا اصل متن انگریزی میں ہے، جس کا ترجمہ مندرجہ ذیل ہے:


 یہ ایوان (سندھ اسمبلی) سرکار کو سفارش کرتا ہے کہ قابل احترام وائسرائے ہند کے توسط سے بڑی سرکار

(برطانوی تاج) تک اس صوبے کے مسلمانوں کے جذبات اور اس خواہش کو پہنچایا جائے کہ ہندوستان کے مسلمان مذہب، فلسفہ، معاشرتی رواج، ادب، روایات، سیاست اور معاشی نظریات کی حامل ایک علیحدہ قوم ہیں، ہندوؤں سے بالکل مختلف وہ ایک واحد، علیحدہ قوم کی حیثیت سے اپنی آزاد قومی ریاستوں  کے حقدار ہیں، جو برصغیر  ہندوستان کے ان علاقوں سے علیحدہ کی جائیں جہاں مسلمانوں کی اکثریت آباد ہے. 

اس لیے یہ (اس خطے (سندھ) کے مسلمان) پرزور انداز میں اعلان کرتے ہیں کہ ان کے لئے ایسا کوئی آئین قابل قبول نہیں ہوگا جو مسلمانوں کو کسی دوسری قوم کے اقتدار پر مبنی مرکزی حکومت کے ماتحت رکھے گا، ایک آزاد قومی مملکت مسلمانوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ آنے والے واقعات کے سلسلے میں اپنے وضع کردہ لائحہ عمل کے ساتھ اپنا آزادانہ کردار ادا کرسکیں،  لہٰذا  مسلمانوں کو کسی بھی مرکزی حکومت کے تحت لانے کی کوئی بھی کوشش خانہ جنگی کے اسباب پیدا کرے گی، جس کے نہایت سنگین اور ناخوشگوار نتائج برآمد ہونگے. 


(قرارداد کی حمایت میں ووٹ دینے والے معزز ارکان اسمبلی)

1۔ سید غلام مرتضیٰ شاہ (جی ایم سید) 

2۔ شیخ عبدالمجید سندھی

3۔ الھ بخش کے. گبول

4۔ حاجی امیر علی لاہوری

5۔ میر بندہ علی خان تالپور

6۔ میر غلام علی خان تالپور

7۔ غلام حسین ہدایت اللہ 

8۔ غلام محمد اسران

9۔ محترم ارباب توگچانی

10۔ سید غلام نبی شاھ

11۔ پیر الاہی بخش نواز علی

12۔ نواب حاجی جام جان محمد

13۔ مسز جینو بائی جی. الانا

14۔ ایس بی سردار قیصر خان

15۔ سید محمد علی شاھ

16۔ محمد ایوب کھہڑو

17۔ حاجی محمد ہاشم گزدر

18۔ محمد عثمان سومرو

19۔ محمد یوسف چانڈیو

20۔ سید نور محمد شاھ

21۔ رئیس رسول بخش خان انڑ

22۔ علی گوہر خان مہر

23۔ شمس الدین خان بارکزئی

24۔ سہراب خان سرکی


(قرارداد کی مخالفت میں ووٹ دینے والے ارکان اسمبلی)

1۔ راء صاحب گوکلداس میول داس

2۔ ڈاکٹر ہیمنداس آر۔ وادھوانی

3۔ لالو مل آر موتیوانی


ضرورت اس امر کی ہے کہ 1940ع کی قرارداد پاکستان کی طرح 1943ع کی قرارداد کو ہر سطح کے مطالعہ پاکستان کے نصاب میں شامل کیا جائے، تاکہ آنے والی نسلوں کو تاریخی تسلسل کی ان گمنام کڑیوں کے بارے میں آگاہی مل سکے.

No comments:

Post a Comment

WHY YOU ANGRY