Sunday, March 6, 2022

HAZRAT USMA RA AND HAZRAT ABU BAKAR SIDDIQUE

 السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

جمعہ اسپیشل 

ذات النطاقین 

تپتی دوپہر اور دھوپ کی حدت سے مانو پوری وادی کملائی ہوئی تھی کہ یکایک دروازے پر مدھم سی دستک ہوئی، ایسی ملائم دستک، جیسے کوئی ہوا کا جھونکا کواڑ چھو کہ گزرا ہو۔ بابا جان بے تابی سے بیرونی دروازے کی جانب بڑھے۔  اندر آنے والی شخصیت انہیں دونوں جہانوں سے عزیز تر تھی۔ دونوں کے مابین کافی دیر راز و نیاز رہا۔ ان کے جاتے ہی بابا جان نے مجھے اور چھوٹی بہن کو 

زاد راہ تیار کرنے کہا۔ اوہ !!!  تو گویا بالآخر وہ لمحہ آن ہی پہنچا۔ پورے گھر میں ایک دبا دبا سا جوش اور چہل پہل تھی۔ رات آدھی گذر چکی تھی ، یہ آتی سردیوں کی رات تھی کہ بابا جان کے معزز دوست آئے ۔ بابا جان اور ان کے دوست لمبے اور پر خطر سفر کے لیے پوری طرح سے تیار تھے۔ کھانے کی پوٹلی باندھنے کے لیے ڈوری نہیں ملی تو میں نے جلدی سے اپنی کمر کا پٹکا کھولا اور اس کے دو ٹکڑے کر کے پوٹلی کا منہ مضبوطی سے باندھ دیا۔ وہ صفر کی ستائسویں شب تھی اور مدھم چاند کی روشنی میں دونوں معززین مکان کی پچھلی کھڑکی سے نکل کر مسفلہ کی گلیوں میں گم ہو گئے۔ ہم دونوں بہنیں کھڑکی سے لگیں ، اندھیرے میں گم ہوتے دونوں مسافروں کے لیے دعا گو تھیں۔ 


ستائیس صفر سنہ 14 نبوت مطابق 622 عیسوی  کی بارہ، تیرہ ستمبر کی درمیانی شب کو سفر پر نکلنے والے جلیل القدر اشخاص کوئی اور نہیں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے عزیز ترین دوست حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے ۔ وہ بابرکت سفر، ہجرت مدینہ تھا اور اس قصے کی راویہ حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہا تھیں۔

وہی خوش نصیب اسماء جنہوں نے اپنے کمر کے پٹکے کو پھاڑ کر دو ٹکڑے کیا تا کہ کھانے کی پوٹلی کا منہ باندھا جا سکے اور بدلے میں آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جنت کی نوید پائی اور لقب

"ذات النطاقین " سے سرفراز کی گئیں۔ 


حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ گھر سے نکل کر یمن جانے والے راستے کی راہ لی۔ اس راستے پر کوئی پانچ میل کا فیصلہ طے کر کے ثور کے پہاڑ پر پہنچے اور یہاں تین راتیں یعنی جمعہ، سنیچر اور اتوار چھپ کر گذاریں۔ اس دوران حضرت ابو بکر کے بیٹے عبداللہ بن ابی بکر بھی تہائی رات یہاں گزارتے اور مکے میں ہونے والی گفتگو اور سرگرمیوں سے دونوں معززین کو آگاہ کرتے اور مکہ میں قریش کے ساتھ یوں صبح کرتے، گویا انہوں نے رات یہیں گذاری ہو ۔ ادھر حضرت ابو بکر صدیق کے غلام حضرت عامر بن فہیرہ بکریاں چراتے رہتے اور جب رات کا ایک حصہ گذر جاتا تو بکریاں لے کر ان کے پاس پہنچ جاتے۔ اس طرح دونوں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ آسودہ ہو کر دودھ پی لیتے۔ حضرت عامر بن فہیرہ، حضرت عبداللہ بن ابی بکر کے مکے جانے کے بعد ان کے قدموں کے نشانات پر بکریاں ہانکتے تھے تاکہ ان کے قدموں کے نشانات مٹ جائیں۔ 

ہجرت کی رات گزر گئی، جب سحر ہوئی اور سرداران قریش نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بستر پر نہ پایا تو غصے سے بالکل پاگل ہو گئے۔ پہلے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو زد و کوب کیا پھر ابو جہل نے حالت طیش میں حضرت ابو بکر صدیق کا دروازہ دھڑ دھڑا دیا۔ گھر میں اٹھ ماہ کی حاملہ حضرت اسما بنت ابی بکر اور نا بینا دادا اور چھوٹی بہنوں کا ساتھ تھا ، بے بسی سی بے بسی کہ پورے مکہ میں کوئی ایک بھی حمایتی اور طرف دار نہیں۔ حضرت اسماء فطری طور پر نہایت جری و خاتون تھیں، سو بے خوفی سے دروازہ کھولا۔

 سامنے ابو جہل قہر کی تصویر بنا کھڑا تھا۔ گرج کر پوچھا " تیرا باپ اور اس کا دوست کہاں ہیں؟"

حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے تحمل سے جواب دیا کہ "مجھے نہیں معلوم۔"

یہ سننا تھا کہ اس بد بخت لحیم شحیم ابو جہل نے پوری قوت سے حضرت اسماء کے رخسار پر تھپڑ رسید کیا کہ ان کا کان زخمی ہو گیا اور کان کی بالی کہیں دور جا گری۔ 


حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا بیان کرتیں ہیں کہ جب میں مدینہ پہنچی تو میرے یہاں عبداللہ کی ولادت ہوئی۔ یہ بہت خوشی کا موقع تھا کیوں کہ یہودیوں نے یہ افواہ پھیلا رکھی تھی کہ ہم نے مکہ کے مہاجروں پر جادو کر کے ان کا سلسلہ نسل منقطع کر رکھا ہے، اس لیے اب ان کے یہاں کبھی کوئی اولاد پیدا نہیں ہو سکتی۔ یہ بھی عجیب اتفاق ہی تھا کہ اتنے عرصے میں مہاجرین میں سے کسی کے گھر بھی ولادت نہیں ہوئی تھی۔ عبداللہ بن زبیر کی پیدائش پر مدینہ نعرہ تکبیر سے گونج اٹھا تھا۔ حضرت عبداللہ کی پیدائش کے بعد، حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا رسول خدا کی خدمت میں پیش ہوئیں اور انہیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گود میں ڈال دیا۔ آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھجور طلب فرمائی اور اسے چبا کر عبداللہ کے منہ میں رکھی۔ چنانچہ، سب سے پہلی چیز جو عبداللہ کے پیٹ میں گئی وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا لعاب دہن تھا، پھر آپ نے حضرت عبداللہ بن زبیر کے لیے دعا فرمائی۔ یہ ہجرت کے بعد مدینہ میں پیدا ہونے پہلے مسلمان بچے تھے۔ 


نام۔ اسما، لقب ۔ ذات النطاقین۔

نسب۔ حضرت اسماء بنت ابو بکر صدیق بن ابو قحافہ عثمان بن عامر بن عمرو بن کعب بن سعد بن تیم بن مرہ بن لؤی القریش۔

حضرت اسماء بنت ابی بکر کی والدہ کا نام قتیلہ بنت عبدالعزی تھا اور ان سے حضرت ابو بکر کی دو اولادیں تھیں، حضرت اسماء بنت ابی بکر اور حضرت عبداللہ بن ابی بکر۔ قتیلہ چوں کہ مسلمان نہیں ہوئی تھیں سو ان سے نکاح باطل ہوا۔ حضرت اسماء کے دوسرے بھائی بہن ، حضرت عائشہ، حضرت ام کلثوم، حضرت محمد،  اور حضرت عبدالرحمان دوسری دو ماؤں سے تھے۔ 


حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہجرت مدینہ سے ستائیس سال قبل مکے میں پیدا ہوئیں۔ ان کے نانا عبدالعزی قریش کے سردار اور دادا ابو قحافہ جو فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہوئے معززین مکہ میں شمار ہوتے تھے۔ 

حضرت اسماء نے گیارہ سال کی عمر میں اسلام قبول کیا اور دائرہ اسلام میں داخل ہونے والوں میں ان کا نمبر پندھرواں ہے۔ ان کا شمار سابقون الاولون میں ہے۔ یہ شروع ہی سے راست گو، حق پرست اور نڈر تھیں۔ ان کا نکاح حضور صلی اللہ علیہ وآلہ کے کی پھوپھی، حضرت صفیہ کے بیٹے جو حواری رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  ہیں، یعنی، "حضرت زبیر بن العوام" سے ہوا۔ حضرت زبیر سے انہیں پانچ بیٹے اور تین بیٹیاں ہوئیں۔ حضرت عبداللہ بن زبیر، حضرت عروہ بن زبیر، حضرت منذر بن زبیر، حضرت مہاجر بن زبیر اور حضرت عاصم بن زبیر اور بیٹیاں حضرت خدیجہ بنت زبیر، حضرت ام الحسن بنت زبیر اور حضرت عائشہ بنت زبیر۔ 

حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں کہ جب میری زبیر سے شادی ہوئی تو وہ بہت تنگ دست اور مفلس تھے۔ ان کی کل متاع ایک گھوڑا اور اونٹ تھا۔ بچوں کی دیکھ بھال، گھر کے کام کاج، میں آٹا گوندھ لیتی تھی پر روٹیاں میری ہمسائی انصار عورتیں بنا دیا کرتیں تھیں، گھر کے لیے پانی بھر کر لانا، ڈول سینا اور اس کے ساتھ ساتھ گھوڑے اور اونٹ کا چارا پانی لانے کی ذمہ داری بھی مجھ پر تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زبیر کو مدینہ سے دو میل کی مسافت پر تھوڑی سی زمین عنایت کی تھی اور میں وہاں سے کجھور کی گٹھلیاں چن کر سر پر گٹھری رکھ کر لاتی اور ان گٹھلیوں کو کچل کر اونٹ کو دیتی۔ حضرت اسماء بیان کرتیں ہیں کہ "ایک دن میں سر پر گٹھلیوں کی گٹھری رکھ کر لا رہی تھی کہ راستے میں مجھے دیکھ کر حضور صلی اللہ علیہ وآلٰہ وسلم نے اپنے اونٹ کو بیٹھا دیا، مگر مجھے حجاب مانع تھا اور میں حضرت زبیر کی غیرت سے بھی واقف تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے گریز کو محسوس کر لیا اور آگے روانہ ہو گئے۔" جب حضرت اسماء نے یہ روداد حضرت زبیر کو سنائی تو انہوں نے جواباً کہا کہ مجھے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تو غیرت نہیں مگر مجھے تمہاری اس کڑی مشقت کا دکھ ضرور ہے۔  جب حضرت ابوبکر  صدیق نے حضرت اسماء کو ایک غلام تحفہ میں دیا تو ان کی زندگی خاصی حد تک آسان ہو گئی کہ وہ غلام باہر کے کاموں کے ساتھ ساتھ گھوڑے اور اونٹ کی دیکھ رکھ کرنے لگا۔ 

حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک لمبا عرصہ ساتھ گذارا، ان کے آٹھ بچے ہوئے لیکن حضرت زبیر کے مزاج کی تیزی کے باعث آئے دن کے گھریلو تنازعات اتنا بڑھے کے بات طلاق پر منتج ہوئی۔ حضرت زبیر سے طلاق کے باوجود وہ ہمیشہ ان کا ذکر نہایت احترام سے کرتی تھیں۔ طلاق کے بعد حضرت اسماء اپنے بیٹے حضرت عبداللہ بن زبیر کے ساتھ رہنے لگیں۔  


جب امیر معاویہ نے اپنی زندگی میں یزید کو خلیفہ نامزد کیا تو حضرت عبداللہ بن زبیر نے اس فیصلے کی شدت سے مخالفت کی۔ حضرت امیر معاویہ کی وفات کے بعد جب یزید کے قاصد ، حضرت عبداللہ بن زبیر سے بیعت لینے آئےتو یہ ایک دن کی مہلت لے کر مدینہ سے نکل کر مکہ چلے آئے اور حدود حرم میں پناہ لی۔ ان کی پیہم کوششوں کے نتیجے کے طور پر اہل حجاز نے اموی خلافت کے خلاف علم بغاوت بلند کر دیا۔ حضرت عبداللہ بن زبیر نے سات برس حکومت کی۔ یزید نے مسلم بن عقبہ کو حضرت عبداللہ بن زبیر کے قتل کے احکامات دئیے اور مسلم بن عقبہ مدینہ میں لشکر کشی کر کے مکے کی جانب بڑھا لیکن ابوا کے مقام پر اجل کا شکار ہوا۔ اس کے بعد حصین بن نمیر نے فوج کی قیادت سنبھالی اور مکہ پر حملہ آور ہوا اور شدید سنگ باری کی جس کی زد میں کعبہ بھی آیا۔ ابن نمیر نے چونسٹھ دن تک مکہ کا محاصرہ جاری رکھا، جب اسے یزید کی موت کی اطلاع ملی تو اس نے حضرت عبداللہ بن زبیر کو خلافت کی پیشکش کی اور ان کے ہاتھ پر بیعت کرنے کو تیار بھی، مگر حضرت عبداللہ بن زبیر نے انکار کیا اور کہا کہ " جب تک میں ایک ایک حجازی کے بدلے دس دس شامیوں کو قتل نہ کر لوں، کچھ نہیں ہو سکتا" .

یوں اس جذباتی فیصلے سے ایک بہترین موقع ہاتھوں سے نکل گیا۔

عبدالملک بن مروان مسند حکومت پر بیٹھا تو اس نے شقی القلب اور سفاک ترین جرنیل حجاج بن یوسف ثقفی کو ایک بڑی فوج کے ساتھ مکہ پر حملہ آور ہونے کا حکم دیا۔ حجاج نے مکہ پہنچتے ہی مکہ کا محاصرہ کر لیا اور کعبہ پر سنگ باری بھی کی۔ طویل محاصرے کے باعث مکہ میں قحط سالی ہو گئ۔ حضرت عبداللہ بن زبیر نے جم کر بے جگری سے مقابلہ کیا مگر کب تک؟ بیشتر ساتھی شہید ہوئے اور کئی حالات کی سختیوں سے گھبرا کر ان کا ساتھ چھوڑتے چلے گئے، شکست اب یقینی تھی سو حضرت عبداللہ ماں سے مشورے کے طالب ہوئے۔ حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا 

" اے میرے لخت جگر !! موت کے خوف سے غلامی کی ذلت قبول کرنا جرآت مند مومن کا شیوہ نہیں۔ حق و صداقت میں شہادت فائق۔ اگر تم حق پر ہو تو لڑتے ہوئے شہادت کے عظیم مرتبے پر فائز ہو جاؤ اور اگر یہ سب دنیا کے لیے تھا، تو تم نے اپنی اور اپنے ساتھیوں کی عاقبت خراب کر لی۔ میری تمنا ہے کہ تم راہ حق میں شہید ہو جاؤ، میں صبر کر لوں گی اور اگر کامیاب ہو گئے تو یہ کامیابی میری خوشی کا باعث ہوگی"

آخری بار ماں نے بیٹے کو مقتل میں بھیجنے سے پہلے گلے لگایا تو انہیں زرہ کی کڑیاں چبھیں، 

پوچھا یہ زرہ کیوں؟

حضرت عبداللہ بن زبیر نے جواب دیا کہ اطمینان کے لیے۔ حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ" بیٹا ! شہادت کے آرزو مند دنیاوی اطمینان سے سے بےنیاز ہوتے ہیں۔"

حضرت عبداللہ بن زبیر نے اپنی شہادت کے بعد اپنے لاش کے مثلہ کیے جانے کے خدشے کا اظہار کیا تو حضرت اسماء نے کہا " جان ام !! بکری جب زبح ہو جاتی ہے تو اسے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کے اس کی کھال اترتی ہے یا اس کی بوٹی کا قیمہ بنتا ہے۔ اصل چیز روح ہے جو اپنے مقام پر پہنچ چکی ہوتی ہے۔ "

بہادر ماں سے رخصت ہو کر حضرت عبداللہ بن زبیر نے کفن پہنا اور اپنی مٹھی بھر جان نثاروں کو لے کر مخالف فوج پر ٹوٹ پڑے اور جلد ہی شہادت کے رتبے پر فائز ہوئے۔ ان کا سر قلم کر کے حجاج کو پیش کیا گیا اور جسد خاکی کو بیت اللہ کے پرنالے پر لٹکا دیا گیا، ایک روایت کے مطابق حجون کے بازار میں لٹکایا گیا۔

جب تین دن گذر گئے تو نا بینا ماں بیٹے سے ملنے آئیں اور شہید اسلام کی الٹی لٹکی ہوئی لاش کو شہادت پر مبارک باد دی اور کہا کہ " کیا اس سوار کے گھوڑے سے اترنے کا وقت ابھی نہیں آیا ؟"

حجاج نے حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کہا کہ دیکھو میں نے دشمن خدا کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ 

حضرت اسماء نے جواب دیا کہ تو نے اس کی دنیا بگاڑی اور اس نے تیری عاقبت خراب کر دی۔ پھر حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنی روایتی بے جگری سے اس ظالم کو مخاطب کیا اور فرمایا کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا تھا کہ " بنو ثقیف سے ایک کذاب اور ظالم پیدا ہو گا۔ کذاب مختار ثقفی کو میں دیکھ چکی اور ظالم تو ہے۔ "

حجاج نے یہ حدیث سنی تو خاموشی سے وآپس چلا گیا۔

چند دن بعد عبدالملک نے لاش اتروانے کا حکم دیا تو حجاج نے لاش اتروا کر یہودیوں کے قبرستان میں پھنکوا دی۔ 

حضرت عبداللہ بن زبیر کی شہادت پہلی اکتوبر سنہ 692 میں بہتر سال کی عمر میں ہوئی۔ حضرت اسماء نے انہیں تکریم کے ساتھ مکہ کے قبرستان میں دفن کروایا اور پھر اس سانحے کے دس یا بیس دن کے بعد  جمادی الاول 73 ہجری میں  سو سال کی عمر میں دار فانی کو الوداع کہا اور مکہ مکرمہ کے قبرستان میں دونوں ماں بیٹے کی قبریں برابر برابر ہیں۔ 

انا للہ وانا الیہ راجعون 


حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہا نہایت پر اعتماد، نڈر، بے خوف اور دل گردہ والی خاتون تھیں ، جو کلمہ حق کسی بھی متکبر چاہیے وہ ابوجہل جیسا فرعون امت ہو یا حجاج جیسا شقی القلب، کسی کے سامنے کہنے سے لمحے بھر کے لیے بھی نہیں جھجکتں تھیں۔ 

پہلے پہل غربت کے باعث، حضرت اسماء جو کچھ صدقہء خیرات کرتیں، ناپ تول کر کرتی تھیں۔ انہیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس روش سے منع فرمایا اور کہا کہ پھر اللہ تعالیٰ تمہیں بھی ناپ کر دے گا۔ اس فرمان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد ، باوجود مفلسی کے وہ کھل کر صدقہ خیرات کرنے لگیں اور اس کے ساتھ ہی تنگ دستی بھی جاتی رہی۔ 

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنی وفات کے وقت ترکہ میں ایک جنگل چھوڑا تھا جو حضرت اسماء کے حصے میں آیا تھا۔ اس جنگل کو ایک لاکھ درہم میں فروخت کر کے کل رقم ضرورت مند عزیزوں میں تقسیم کر دی۔

ایک دفعہ ان کی مشرکہ ماں ان سے ملنے مدینہ آئیں تو حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت فرمایا کہ مشرک ماں کے ساتھ کیسا معاملہ کروں؟

رحمت العالمین کا ارشاد مبارک تھا کہ اپنی ماں کے ساتھ صلہ رحمی کرو۔ 

حضرت اسماء نے کئی حج کئے، پہلا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اور پھر حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ساتھ بھی حج کیا۔ حج کے زمانے میں ان کا معمول تھا کہ حاجیوں کو مناسک حج پر درس دیا کرتیں۔

حضرت اسماء بیمار پڑتیں تو اپنے تمام غلام آزاد کر دیتی تھیں۔ حضرت اسماء کے تقدس کا عام چرچا تھا اور لوگ ان سے دعا کروانے کے لیے آیا کرتے تھے۔۔ جب کوئی عورت بخار میں مبتلا ہوتی اور دعا کے لیے آتی تو اس کے سینہ پر پانی چھڑکتیں ور کہتیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ بخار کو پانی سے ٹھنڈا کرو۔ انہوں نے کافی ساری روایات رقیہ، حجاب، حیض اور عورتوں سے متعلق مسائل پر بیان کیں ہیں۔ 

حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہا بے انتہا نڈر خاتون تھیں اور انہوں نے اپنے میاں اور اپنے چودہ سالہ بیٹے حضرت عبداللہ کے ساتھ جنگ یرموک میں حصہ لیا تھا۔ حضرت سعد بن عاص کے دور میں، جب مدینہ میں 

بہت بد امنی پھیل گئی تو وہ اپنے سرہانے خنجر رکھ کر سویا کرتی تھیں تا کہ ڈاکوؤں اور چوروں سے مقابلہ کر سکیں۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے چھپن احادیث روایت کیں ہیں جو صحیحین اور سنین میں موجود ہیں۔ راویوں میں حضرت عبداللہ، حضرت عروہ، حضرت عباد بن عبداللہ، حضرت عبداللہ بن عروہ ، حضرت فاطمہ بنت المنذر، حضرت عبادہ بن حمزہ بن عبداللہ بن زبیر، حضرت ابن عباس، حضرت صفیہ بنت شیبہ ابن ابی ملیکہ اور حضرت وہب بن کیسان شامل ہیں۔ 


حوالاجات

صحیح البخاری 3905

سیرت ابن اسحاق صفحہ 344

صحیح البخاری 3909

صحیح البخاری 5224

الرحیق المکتوم

لیکچر شیخ عمر سلیمان 


از قلم

شاہین کمال

کیلگری

No comments:

Post a Comment

WHY YOU ANGRY