Saturday, December 24, 2022

Normal insulin level

 What is a normal insulin level?

Using commercial assays, normal fasting insulin levels range between 5 and 15 µU/mL but with more sensitive assays normal fasting insulin should be lower than 12 µU/mL. Obese subjects have increased values, while very high circulating levels are found in patients with severe insulin resistance

Insulin, s purpose

Purpose of Insulin

Insulin is a peptide hormone produced by beta cells

 Insulin is a peptide hormone produced by beta cells of the pancreatic islets encoded in humans by the INS gene. It is considered to be the main anabolic hormone of the body

Sunday, December 18, 2022

Mania siklodoviska 1891,Poland, physics, pairi scientist, Radium,

 ★پولینڈ کے ایک چھوٹے سے قصبے میں ایک غریب لڑکی رہتی تھی‘ اس کا نام مانیا سکلوڈو وسکا تھا‘ وہ ٹیوشن پڑھا کر گزر بسر کرتی تھی‘19 برس کی عمر میں وہ ایک امیر خاندان کی دس سال کی بچی کو پڑھاتی تھی‘ بچی کا بڑا بھائی اس میں دلچسپی لینے لگا‘ وہ بھی اس کی طرف مائل ہوگئی چنانچہ دونوں نے شادی کرنے کا فیصلہ کیا لیکن جب لڑکے کی ماں کو پتہ چلا تو اس نے آسمان سر پر اٹھا لیا‘ اس نے مانیا کو کان سے پکڑا اور پورچ میں لا کھڑا کیا‘اس نے آواز دے کر سارے نوکر جمع کئے اور چلا کر کہا ‘ دیکھو یہ لڑکی جس کے پاس پہننے کیلئے صرف ایک فراک ہے‘ جس کے جوتوں کے تلوئوں میں سوراخ ہیں اور جسے 24 گھنٹے میں صرف ایک بار اچھا کھانا نصیب ہوتا ہے اور وہ بھی ہمارے گھر سے‘ یہ لڑکی میرے بیٹے کی بیوی بننا چاہتی ہے‘ یہ میری بہو کہلانے کی خواہش پال رہی ہے‘‘ تمام نوکروں نے قہقہہ لگایا اور خاتون دروازہ بند کر کے اندر چلی گئی‘ مانیا کو یوں محسوس ہوا جیسے کسی نے اس کے اوپر تیزاب کی بالٹی الٹ دی ہو‘ وہ توہین کے شدید احساس میں گرفتار ہوگئی اور اس نے اسی پورچ میں کھڑے کھڑے فیصلہ کیا وہ زندگی میں اتنی عزت‘ اتنی شہرت کمائے گی کہ پورا پولینڈ اس کے نام سے پہچانا جائے گا۔

یہ 1891ء تھا‘ وہ پولینڈ سے پیرس آئی‘ اس نے یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور فزکس پڑھنا شروع کردی‘ وہ دن میں 20 گھنٹے پڑھتی تھی‘ اس کے پاس پیسہ دھیلا تھا نہیں جو کچھ جمع پونجی تھی وہ اسی میں گزر بسر کرتی تھی‘ وہ روز صرف ایک شلنگ خرچ کرتی تھی‘ اس کے کمرے میں بجلی‘ گیس اور کوئلوں کی انگیٹھی تک نہیں تھی‘ وہ برفیلے موسموں کی راتیں کپکپا کر گزارتی تھی‘ جب سردی برداشت سے باہر ہو جاتی تھی تو وہ اپنے سارے کپڑے نکالتی تھی‘ آدھے بستر پر بچھاتی تھی اور آدھے اوپر اوڑھ کر لیٹ جاتی تھی‘ پھر بھی گزارہ نہ ہوتا تو وہ اپنی ساری کتابیں حتیٰ کہ اپنی کرسی تک اپنے اوپر گرا لیتی تھی‘ پورے پانچ برس اس نے ڈبل روٹی کے سوکھے ٹکڑوں اور مکھن کے سوا کچھ نہ کھایا‘ نقاہت کا یہ عالم ہوتا تھا وہ بستر پر بیٹھے بیٹھے بے ہوش ہو جاتی تھی لیکن جب ہوش آتا تھا تو وہ اپنی بے ہوشی کو نیند قرار دے کر خود کو تسلی دے لیتی تھی‘ وہ ایک روز کلاس میں بے ہوش ہوگئی‘ ڈاکٹر نے اس کا معائنہ کرنے کے بعد کہا‘ آپ کو دواء کی بجائے دودھ کے ایک گلاس کی ضرورت ہے‘ اس نے یونیورسٹی ہی میں پائری نام کے ایک سائنس دان سے شادی کر لی تھی‘ وہ سائنس دان بھی اسی کی طرح مفلوک الحال تھا‘ شادی کے وقت دونوں کا کل اثاثہ دو سائیکل تھے‘ وہ غربت کے اسی عالم کے دوران پی ایچ ڈی تک پہنچ گئی‘ مانیا نے پی ایچ ڈی کیلئے بڑا دلچسپ موضوع چنا تھا‘ اس نے فیصلہ کیا وہ دنیا کو بتائے گی یورینیم سے روشنی کیوں نکلتی ہے‘ یہ ایک مشکل بلکہ ناممکن کام تھا لیکن وہ اس پر جت گئی‘ تجربات کے دوران اس نے ایک ایسا عنصر دریافت کر لیا جو یورینیم کے مقابلے میں 20 لاکھ گنا روشنی پیدا کرتا ہے اور اس کی شعاعیں لکڑی‘ پتھر‘ تانبے اور لوہے غرض دنیا کی ہر چیز سے گزر جاتی ہیں‘ اس نے اس کا نام ریڈیم رکھا‘ یہ سائنس میں ایک بہت بڑا دھماکہ تھا‘ لوگوں نے ریڈیم کا ثبوت مانگا‘ مانیا اور پائری نے ایک خستہ حال احاطہ لیا جس کی چھت سلامت تھی اور نہ ہی فرش اور وہ چار برس تک اس احاطے میں لوہا پگھلاتے رہے‘ انہوں نے تن و تنہا 8 ٹن لوہا پگھلایا اور اس میں سے مٹر کے دانے کے برابر ریڈیم حاصل کی‘ یہ چار سال ان لوگوں نے گرمیاں ہوں یا سردیاں اپنے اپنے جسموں پر جھیلیں‘ بھٹی کے زہریلے دھوئیں نے مانیا کے پھیپھڑوں میں سوراخ کر دیئے لیکن وہ کام میں جتی رہی‘ اس نے ہار نہ مانی یہاں تک کہ پوری سائنس اس کے قدموں میں جھک گئی۔ یہ ریڈیم کینسر کے لاکھوں کروڑوں مریضوں کیلئے زندگی کا پیغام لے کر آئی‘ہم آج جسے شعائوں کا علاج کہتے ہیں یہ مانیا ہی کی ایجاد تھی‘اگر وہ لڑکی چار سال تک لوہا نہ پگھلاتی تو آج کیسنر کے تمام مریض مر جاتے‘ یہ لڑکی دنیا کی واحد سائنس دان تھی جسے زندگی میں دوبار نوبل پرائز ملا‘ جس کی زندگی پر 30 فلمیں اور سینکڑوں کتابیں لکھی گئیں اور جس کی وجہ سے آج سائنس کے طالب علم پولینڈ کا نام آنے پر سر سے ٹوپی اتار دیتے ہیں۔ جب دنیا نے مادام کیوری کو اس ایجاد کے بدلے اربوں ڈالر کی پیش کش کی تو اس نے پتہ ہے کیا کہا؟ اس نے کہا‘ میں یہ دریافت صرف اس کمپنی کو دوں گی جو پولینڈ کی ایک بوڑھی عورت کا مفت علاج کرے گی‘ جی ہاں! وہ امیر پولش عورت جس نے کبھی کیوری کو کان سے پکڑ کر باہر نکال دیا تھا ‘ وہ اس وقت کینسر کے مرض میں مبتلا ہو چکی تھی اور وہ اس وقت بستر مرگ پر پڑی تھی.

بس ظرف بڑا رکھنے کی بات ہے مال و دولت ہونا ضروری نہیں ۔ اس لڑکی نے اتنا سہنے کے بعد بھی اس عورت کے ساتھ حسن سلوک کر کے انسانیت کا بہت سبق دیا ۔

Saturday, December 17, 2022

People born between 1961 and 1993 are called generation x

 People born between 1961 and 1993 are called Generation X

 It is said that Generation X has seen the biggest and most changes in the world

  From the advent of the VCR to the demise of the audio cassette

  As far as the USP steak

  From black and white broadcasting to color digital smart TVs

  From old dial telephones to the latest smart phones from kite flying to drones from black and white photos to high definition images.

 This generation of human beings who hide thousands of stories of ups and downs and changes in their breasts is very valuable

 All of us who belong to Generation X are precious.

X Generation 1961 to 1993 audio caste to andriod mobile and airopkanes

 جتنے لوگ 1961 سے 1993 کے درمیان پیدا ہوئے انہیں جنریشن ایکس کہا جاتا پے

کہتے ہیں دنیا میں سب سے بڑی اور سب سے زیادہ تبدیلیاں جنریشن ایکس نے ہی دیکھیں ہیں

 وی سی آر کی آمد سے لیکر اسکی ناپیدی تک آڈیو کیسٹ سے لیکر

 یو ایس پی سٹیک تک

 بلیک اینڈ وائٹ نشریات سے رنگین ڈیجیٹل سمارٹ ٹی وی تک

 ڈائل گھما کر ملانے والے پرانے ٹیلی فون سے لیکر جدید ترین سمارٹ فون تک پتنگ بازی سے لیکر ڈرون جہاز تک بلیک اینڈ وائٹ تصویروں سے لیکر ہائی ڈیفینیشن امیج تک

اپنے سینوں میں عروج و زوال تغیر و تبدیلی کی ہزاروں داستانیں چھپائے ہوئے انسانوں کی یہ جنریشن بڑی قیمتی ہے

ہم سب میں سے جو ایکس جنریشن میں سے ہیں بہت قیمتی ہیں.

Friday, December 16, 2022

Muhammad Sharif Kalhoro SP Khairpur and Farah Amanullah Assistant Commissioner

 هاري جو پُٽ اي ايس پي.....!!


خيرپور ضلع جي پير ڳوٺ احمدپور لڳ ڳوٺ محمد يوسف ڪلهوڙو ڳوٺ جو رهواسي محمد شريف ڪلهوڙو سڀني غريبن ۽ مسڪين نوجوان لاءِ هڪ مثالي ڪردار آهي.....!!


محمد شريف ڪلهوڙو جو تعلق انتهائي غريب خاندان سان آهي, سندس جي گهر ۾ ڪوئي به پڙهيل لکيل ناهي, سندس والد هاري ۽ سندس ڀاءُ پوليس ۾ سپاهي آهي, سندس جي والدين کيس پڙهائي ۾ هوشيار ڏسي کيس همٿايو ۽ شريف ڪلهوڙي 2008 ۾ ڪيڊٽ ڪاليج لاڙڪاڻي اسڪالرشپ وسيلي داخلا ورتي ۽ ڪيڊٽ ڪيپٽن پڻ بڻيو ڪاليج اندر, آرمي ۾ بطور سيڪنڊ ليفٽينٽ لاءِ ٻه داخلا ٽيسٽ ڏنائين پر ناڪام رهيو ۽ جي سي يونيورسٽي لاهور ۾ داخلا ورتائين, غريب خاندان جي هن نوجوان يونيورسٽي ۾ پڙهڻ سان گڏ اتي رهندڙ شاگردن کي ٽيوشن ڏئي پئيسا ڪمائي پنهنجو خرچ پورو ڪندو هو..


2018 ۾ سي ايس ايس جي امتحان جي هڪ پيپر اسلامڪ اسٽڊيز ۾ فيل ٿي پر 2019 ۾ سي ايس ايس جي امتحان ۾ پاڪستان 26 پوزيشن ۽ سنڌ ۾ 3 پوزيشن ماڻي پاڪستان جي پوليس سروسز ۾ اي ايس پي بڻجي ويو....


محمد شريف ڪلهوڙي گذريل سان اسٽنٽ ڪمشنر فرحا امان الله شادي پڻ ڪئي آهي....!!


محمد شريف ڪلهوڙو هن وقت بلوچستان  copied ڪچلاڪ ۾ ايس ايس پي لڳل آهي...

Wednesday, December 14, 2022

Fuse Bulb and Retired officer Government Servant

 فیوز بلب 


 ایک ہاؤسنگ سوسائٹی میں رہائش کے لئے ایک بڑا افسر آیا ، جو تازہ تازہ ریٹائر ہوا تھا


 یہ بوڑھا بڑا ریٹائرڈ افسر  حیران اور پریشان ، ہر شام سوسائٹی پارک میں گھومتا ، دوسروں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتا اور کسی سے بات نہیں کرتا تھا -


  ایک دن وہ شام کے وقت ایک بزرگ کے پاس باتیں کرنے کے لئے بیٹھ گیا اور پھر اس کے ساتھ تقریبا" روزانہ بیٹھنے لگا۔  اس کی گفتگو کا ہمیشہ ایک ہی موضوع رہتا تھا۔  "میں اتنا بڑا افسر تھا جس کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا اور نہ پوچھ سکتا ہے ، یہاں میں مجبوری وغیرہ میں آیا ہوں۔"  اور وہ بزرگ اس کی باتیں سکون سے سنتے تھے۔


 ایک دن جب "ریٹائرڈ" افسر نے دوسرے ساتھی کے بارے میں کچھ جاننے کی خواہش کی تو اس بزرگ نے بڑی انکساری کے ساتھ اسے جواب دے کر دانشمندی کی بات بتائی -


 اس نے وضاحت کی:-


 "ریٹائرمنٹ کے بعد  ہم سب فیوز بلب کی طرح ہو جاتے ہیں اس کی اب کوئی اہمیت نہیں رہتی کہ یہ بلب کتنی وولٹیج کا تھا ، کتنی روشنی اور چمک دیتا تھا ، فیوز ہونے کے بعد اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔


  انہوں نے جاری رکھتے ہوئے کہا کہ "میں گذشتہ 5 سالوں سے سوسائٹی میں رہ رہا ہوں اور کسی کو یہ نہیں بتایا کہ میں دو بار پارلیمنٹ کا ممبر رہا ہوں۔  یہاں ایک اور صاحب ہیں وہ ریلوے کے جنرل منیجر تھے ، یہاں گلزار صاحب ہیں فوج میں بریگیڈیئر تھے ، پھر ندیم صاحب ہیں جو ایک کمپنی کے کنٹری ہیڈ تھے ، انہوں نے یہ باتیں کسی کو نہیں بتائی ، حتی کہ مجھے بھی نہیں ، لیکن ہم سب جانتے ہیں۔


 "فیوز کے تمام بلب اب ایک جیسے ہیں - چاہے وہ صفر واٹ ، 40 ، 60 ، 100 واٹ ، ہلوجن ہو یا فلڈ لائٹ کے ہوں ، اب کوئی روشنی نہیں دیتا اور بے فائدہ ہیں۔  اور ہاں اس بات کی آپ کو جس دن سمجھ آجائے گی ، آپ معاشرے میں سکون  زندگی گزار سکیں گے۔


  ہمارے ہاں طلوع اور غروب آفتاب کو یکساں احترام دیا جاتا ہے ، لیکن اصل زندگی میں  ہم طلوع آفتاب کی قدر زیادہ کرتے ہیں جتنی جلدی ہم اس کو سمجھیں گے اتنا جلد ہی ہماری زندگی آسان ہوجائے گی۔


لہذا فیوز بلب ہونے سے پہلے ۔۔۔۔۔۔

جتنی بھی خیر کی زیادہ سے زیادہ روشنی پھیلا سکتے ہو ۔۔۔۔پھیلا دو۔۔۔۔۔۔۔۔تاکہ کل کو جب اندھیرے کمرے میں جا و ۔۔۔۔تو یہی روشنی کام آئے۔۔۔۔۔

ورنہ جانا تو ہے ۔۔۔۔۔

Monday, December 12, 2022

Do some magic, may he be mad in loce

 Do some magic.

 May he be mad in love.

 In this way, it turned upside down.

 I Shama, be that Parwana.


  Just look at the tricks of the stars.

 Draw a horoscope like Qalandar

  Recite any such Jantar Mantra.

 Do whatever Bakht Sikandar does


 Cut something like that.

  No one could cut it.

 Someone help me.

 He will fall in love with me.


 Get some fortune.

 Flowers rose in the path of death.

 Someone spit water like that.

 When I drank it, my dreams came.

 

 Do some black magic

  Who brightens my day.

 He said Mubarak come quickly.

 Don't live now, son of yours.


 Put me on someone like that.

 By which they met the heart.

  Sing a hymn.

 If you read it, you will find my friend


 Someone can control the uncontrollable jinn.

 Take out any snake from the string

 A bird pulling a thread

 No Manka from Aksha Dhari.


 Can someone teach me such words?

 They think I am a good talker.

 Do something like this to me.

 He knows, I am Jan Nisar.


 Find someone and bring that musk.

 He thought I was like the moon.

 Which is the will of my friend.

 He thought I was exactly the same.

  

 Read any such name of Azam.

  Who sheds tears in prostrations.

 And as you claim

 Be beloved at my feet.


 But let me tell you one thing.

  Is this a matter of steps?

  Beloved is above the eyes.

 Do I have stone hours?


 And the agent hears this change.

 This work is very harmful.

 All threads are in his hands.

 Who is the owner of tomorrow's world.

Koi esa jado tona kar

 کوئی ایسا جادو ٹونہ کر۔

مرے عشق میں وہ دیوانہ ہو۔

یوں الٹ پلٹ کر گردش کی۔

میں شمع، وہ پروانہ ہو۔


 زرا دیکھ کے چال ستاروں کی۔

کوئی زائچہ کھینچ قلندر سا

 کوئی ایسا   جنتر منتر پڑھ۔

جو کر دے بخت   سکندر سا


کوئی  چلہ ایسا کاٹ کہ پھر۔

 کوئی  اسکی کاٹ نہ کر پائے ۔ 

کوئی ایسا دے تعویز مجھے۔

وہ مجھ پر عاشق ہو  جائے۔۔


کوئی فال نکال کرشمہ گر ۔

مری  راہ  میں پھول گلاب آئیں۔    

کوئی پانی پھوک کے دے ایسا۔

وہ پئے تو میرے خواب آئیں۔

 

کوئی ایسا کالا جادو کر 

 جو جگمگ کر دے میرے دن۔

وہ کہے مبارک جلدی آ ۔

اب جیا نہ جائے تیرے بن۔


کوئی ایسی رہ پہ  ڈال مجھے ۔

جس رہ سے وہ دلدار  ملے۔ 

 کوئی تسبیح  دم درود بتا ۔

جسے پڑھوں تو میرا  یار ملے


کوئی قابو کر بے قابو جن۔

کوئی سانپ نکال پٹاری سے 

کوئی دھاگہ کھینچ پراندے کا

کوئی منکا اکشا دھاری سے ۔


کوئی ایسا بول سکھا دے نا۔

وہ سمجھے خوش گفتار ہوں میں۔

کوئی ایسا عمل کرا مجھ سے ۔

وہ جانے ، جان نثار ہوں میں۔


کوئی ڈھونڈھ کے وہ کستوری لا۔

اسے لگے میں چاند کے جیسا ہوں ۔

جو مرضی میرے یار کی ہے۔

اسے لگے میں بالکل ویسا ہوں۔

  

کوئی ایسا اسم اعظم پڑھ۔

 جو اشک بہا دے سجدوں میں۔

اور جیسے تیرا دعوی  ہے 

محبوب ہو میرے قدموں میں ۔


پر عامل رک،  اک بات کہوں۔

 یہ قدموں والی بات ہے کیا ؟

 محبوب تو ہے سر آنکھوں پر۔ 

مجھ پتھر کی اوقات ہے کیا۔


اور عامل سن یہ کام بدل۔

یہ کام بہت نقصان کا ہے۔

سب دھاگے اس کے ہاتھ میں ہیں۔

جو مالک کل جہان کا ہے۔

Ghana, Africa

 جاگرافي سيريز ۾ اڄ جي پوسٽ اولهه آفريقا ۽ دنيا جي پرامن ديس #ghana  گهانا بابت . 


گهانا جنهن جو پراڻو نالو گولڊ ڪووسٽ آهي . جنهن جي سڃاڻپ ڪوامي نڪروما ۽ ڪوفي عنان آهن. 


گهانا  هڪ گهڻ لساني ۽ قدرتي وسيلن سان مالامال ڪنڌار ملڪ آهي . پرامن ايترو جو سندن وٽ ڪُل فوج ئي چوڏهن هزار آهي . 10 هزار آرمي ٻه هزار نيوي ۽ ٻه هزار هوائي فوجي شامل آهي . ملڪ جي معيشيت جو صرف 0.5 سيڪڙو ڊفينس تي خرچ ڪندڙ آهن . 


ڏکڻ ائٽلانٽڪ ۽ وولٽا درياِء جي ڪناري جو هي ملڪ گرم ۽ خشڪ موسم رکندڙ وارياسو ۽ سامونڊي ديس هئڻ باوجود سڄي ايراضي تي 21 سيڪڙو ٻيلا به رکندڙ آهن . 


هن ديس جي اصل باشندن جي ڪنهن کي خبر ناهي پر 12 صدي ۾ هتي بونومين ۾ سون جو واپار شروع ٿيو .15 صدي ۾ ڏکڻ گهانا ۾ اڪانا قبيلو آيو پوِء پورچوگيز ۽ ان بعد ٻيون يورپي طاقتون آيون جيڪي علائقي تي حق حاڪميت لاِء لڙندا رهيا . 

اتر ۾ ڊيگبن ۽ ڏکڻ ۾ اشانتي سلطنتون ٺهيون ۽ اهي 18 صدي تائين طاقتور هيا جيڪي دنيا کي غلام وڪرو ڪندا هيا ۽ موٽ ۾ هٿيار ۽ بارود خريد ڪندا هيا ٻي سرزمين تي قبضي لاِء جيئن اڄ سامراجي ملڪ وسيلا وڪڻي هٿيار خريد ڪندا آهن مظلومن کي ڊيڄارڻ لاِء . 


 19 صدي ۾ انگريز بهادر هن سرزمين تي پير کوڙيا جن کي هتان وارن هوش محمد شيدي سنڌي جيان ڀرپور مزاحمت ڪئي پر نيٺ انگريز به هتي وڻ وسايا .انگريزن هن خطي کي گولڊڪوسٽ ۽ ٽوگولينڊ  جو نالو ڏئي ڪالوني بڻايو . 


گهانا 06 مارچ 1957 تي انگريز کان آزادي ماڻي . 


گهانا . پراڻو نالو گولڊڪوسٽ نئون نالو گهانا

گادي جو هنڌ . عقراِء 

آبادي . 33107275 پلس ماڻهو 

ايراضي . 238 535 چورس ڪلوميٽر

سامونڊي ڪنارو . 11000 چورس ڪلوميٽر


پاڙيسري ملڪ . آئيوري ڪوسٽ ۽ برڪينافاسو 

مذهب عيسائيت 

ٻولي 

انگريزي سرڪاري 

قومي ڏينهن .06 مارچ 


هيڊآف اسٽيٽ صدر 

هيڊ آف گورنمينٽ صدر 

حڪومت . آئيني جمهوريت 

وڏا شهر . عقره . ٽيما ۽ ٽيڪوراڊي ڪماسي.ڪيپ ڪوسٽ 

تعليمي شرح .79 سيڪڙو .


وڏي چوٽي . جبل افڊيٽ 855 ميٽر

هيٺاهون هنڌ ائٽلانٽڪ سمنڊ .  


وڻج واپار 30 ارب ڊالر ۽ شامل ائٽم . سون 11 ارب ڊالر 

تيل 6 ارب ڊالر . ڪوڪوئا بينز ميگنيز .ڊائمنڊ ڪاٺ مڇي رٻڙ لوڻ چن جو پٿر شامل آهن . 


ڪوامي نڪروما ادب جو عالمي ايوارڊ به ماڻيو ۽ ملڪ جو پهريون سربراهه به بڻيو . ان بعد ڪوفي عنان اقوام متحده جو جنرل سيڪريٽري هيو . 


آفريقا جنهن لاِء مشهور آهي ته هي اونداهون کنڊ آهي پر ان جي ملڪن جي ترقي ڏسي چئي سگهجي ٿي ته اونداهين ۾ هتان جا خطا آهن پر هي روشن ملڪ ۽ کنڊ آهن . . 


جاويدحالتي گهانا آفريقا 

ڳوٺ فريدآباد لاڙڪاڻو .سنڌ

Story writer Mushtaque Kamlani Sindh Sijawal, Thatha

 یہ کسی عام فقیر کی تصویر نہیں بلکہ سجاول تحصیل ٹھٹہ (سندھ) سے تعلق رکھنے والے مشہور و معروف کہانی نویس اور ناول نگار محترم مشتاق کاملانی صاحب ہیں۔ کاملانی صاحب سندھ یونیورسٹی جامشورو کے ذہین ترین طالب علموں میں سے ایک تھے۔ مشتاق احمد کاملانی صاحب فر فر انگریزی بولتے ہیں، فارسی، پنجابی اور اردو تو جیسے آپ کی مادری زبانیں ہوں

 ان کی لکھی ہوئی کہانیاں آل انڈیا ریڈیو اور آکاشوانی پر بھی چلتی رہیں مشتاق احمد کاملانی صاحب نے اپنے افسانے “گونگی بارش” اور “چپٹا لہو” لکھ کر سندھی افسانے نگاری میں وہ نام پیدا کیا کہ دیکھتے ہی دیکھتے اس کا نام کہانی اور افسانہ نگاروں کی صفحہ اول میں شمار ہونے لگا. 

کاملانی صاحب نے اپنا ناول “رولو” عین گریجویشن کے امتحاں کے دوران ہی لکھا تھا۔ جنرل ضیاء الحق مرحوم کے مارشل لاء کے زمانے میں ایک کہانی “گھٹی ہوئی فضا” کے نام سے بھی لکھی ہے۔

اس نامور ادیب کے چھوٹے سے گھر پر قبضہ کیا گیا ہے اور اب یہ سالوں سے دن کے وقت ٹھٹہ کی گلیوں میں اور رات کو سجاول کے بس سٹاپ پر بھیک مانگتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ کاملانی صاحب کے چہرے پر آپ کو بیک وقت دو مخالف کیفیتیں دیکھنے کو ملیں گے، یعنی آنکھوں میں آنسو، اور ہونٹوں پر تمام انسانیت پر طنزیہ مسکراہٹ…

خدارا ! مشتاق کاملانی صاحب کے ساتھ ہو رہے ظلم کے خلاف آواز اٹھائیے ورنہ مشتاق کاملانی صاحب کے ذیل کے اس جملے پر ہی عمل کر لیجیئے جو انھوں نے ایک کہانی میں لکھا ہے۔

"اگر خدا نے تمہارے منہ میں زبان رکھی ہے اور اسے سچ کہنے کے لیے اس کا استعمال نہیں کرتے، تو ایک احسان کرو، اسے کٹوالو… اور ہاں! جہاں اتنی محنت ہوگی، وہاں ایک کام اور بھی کروا لینا… اپنی یہ ناک بھی کٹوا دینا…، انسانیت کو تم پر کم از کم شرم تو نہ آسکے۔"

 (کاپي)

Colors of Pakistan

Sunday, December 11, 2022

I will gather wealth and money what will happen after that.Qamar jalalabadi

 I will gather wealth and money, what will happen after that


 I'll take a nice house, what's next?


 If you want me, you will become me


 I will go on a trip to Kadu, what will I do next?


 There will be a passion for beauty and secrets


 I will have a good night's sleep, what happened after that?


 I will decorate the gatherings with poetry and speech


 There will be a name in the world, but what happened after that?


 If the wave comes, I will go everywhere


 Back to the same old town, what happened after that


 One day death will knock on the door of life


 The lamp of the moon will go out, what will happen after that?


 It was there that the dust will be mixed with the dust


 Who knows what happened after that


 


 Qamar Jalalabadi

Wealth. Gather. After that. کرلونگا جمع دولت و زر اس کي بعد کيا

 ‎کر لوں گا جمع دولت و زر، اس کے بعد کیا


‎لے لوں گا شاندار سا گھر، اس کے بعد کیا


‎مے کی طلب جو ہو گی تو بن جاؤں گا میں رند


‎کر لوں گا مے کدوں کا سفر، اس کے بعد کیا


‎ہو گا جو شوق حسن سے راز و نیاز کا


‎کر لوں گا گیسوؤں میں سحر، اس کے بعد کیا


‎شعر و سخن کی خوب سجاؤں گا محفلیں


‎دنیا میں ہو گا نام مگر، اس کے بعد کیا


‎موج آئے گی تو سارے جہاں کی کروں گا سیر


‎واپس وہی پرانا نگر، اس کے بعد کیا


‎اک روز موت زیست کا در کھٹکھٹائے گی


‎بجھ جائے گا چراغِ قمر، اس کے بعد کیا


‎اٹھی تھی خاک خاک سے مل جائے گی وہیں


‎پھر اس کے بعد کس کو خبر، اس کے بعد کیا


 


قمر جلال آبادی

Come to work for someone who is in pain

 Come to work for someone who is in pain

 Give him a dive

 This gaze is the intoxicant

 Put it on someone

 I don't know about mosques

 I don't know the temples

 Accept my humility

 Give me more pain

 I don't want to live

 I don't want to be a hundred years old

 Miss my friends

 He is eternal

 This is the pride of drunkenness

 This is my heart's desire

 Continue my love

 Give beauty to my friends

 What should I do with you?

 This is the death of my fears

 "Give" me again.

 Take me out of Paradise

کسي درد مند کي کام آ ۔Kisi dardmand ke kam aaa

 کِسی درد مند کے کام آ

کِسی ڈوُبتے کو اُچھال دے

یہ نِگاہِ مست کی مستِیاں

کسی بدنصیب پے ڈال دے

مُجھے مسجِدوں کی خبر نہیں

مُجھے مندِروں کا پتہ نہیں

میری عاجزِی کو قبُول کر

مُجھے اور درد و ملال دے

مُجھے زِندگی کی طلَب نہیں

مُجھے سَوٴ برس کی حَوَس نہیں

‏میرے کالکوں کو مہُو کر

وہ فنا جو ہے لازوال دے

یہ مئے کشی کا غروُر ہے

یہ میرے دِل کا سُرور ہے

میرےمئےکدے کو دُوام دے

میرے ساقِیوں کوجمال دے

میں تیرے وِصال کا کیا کرُوں

میری وَحشتوں کی یہ موٴت ہے

ہو تیراجُنوں مجھے پھر”عطا“

مجھےجَنتوں سے نِکال دے

دعا مين التجا نهين۔ There is no request in prayer.

 دعا میں التجا نہیں

دعا میں التجا نہیں،

تو عرض حال مسترد

سرشت میں وفا نہیں،

تو سو جمال مسترد


ادب نہیں، تو سنگ و خشت

ہیں تمام ڈگریاں

جو حُسن خلق ہی نہیں،

تو سب کمال مسترد


عبث ہیں وہ ریاضتیں

جو یار نہ منا سکیں

وہ ڈھول تھاپ بانسری،

وہ ہر دھمال مسترد


کتاب عشق میں یہی

لکھا ہوا تھا جا بجا

بجز خیال یار کے،

ہر اک خیال مسترد


کہو سنو ملو مگر

بڑی ہی احتیا ط سے

مٹھاس بھی تو زہر ہے،

جو اعتدال مسترد


وہ شخص آفتاب ہے،

میں اک چراغ کج ادا

سو اس حسین کی بزم میں،

میری مجال مسترد


تو کیا کوئی گلاب ہے،

حَسین میرے یار سا؟

وہ لا جواب شخص ہے،

سو یہ سوال مسترد


میں معترف تو ہوں تیرا،

مگر اے چاند معذرت

کہ ذکر حُسن یار میں،

تیری مثال مسترد


حساب عمر دیکھ لو،

کہ پھر پل صراط پر

یہ نفس کے اگر مگر،

فریب چال مسترد


دعا میں التجا نہیں،

تو عرض حال مسترد

سرشت میں وفا نہیں،

تو سو جمال مسترد


مبارک صدیقی

How to get scholarship in universities?

 How to get scholarship in university ? 

يونيورسٽي ۾ داخل ٿيڻ کانپوء غريب ۽ ھوشيار شاگرد لاء مختلف اسڪالرشپس رکيل ھونديون آھن ۔ ڪجھ اسڪالرشپس چئن سالن لاء ته ڪجھ وري ھڪ چڪر ئي ملنديون آھن ۔ تقريبن ھر شاگرد جو سوال ھوندو آھي ته اسڪالرشپ جي فارم ۾ اھڙي ڪھڙي ڳالھ رکجي ته اسڪارشپ ملي سجگھي ،اسان اڄ سڄو پراسيس کي سمجھڻ جي ڪوشش ڪيون ٿا ۔ 

1:اسڪالرشپ وٺڻ لاء بنيادي ڳالھ ته اوھان جي داخلا ميرٽ تي ھجي ان کانپوء اوھان اپلاء ڪرڻ جي اھل ھونده ۔

:2ھر اسڪارشپ جي ايڊ ۾ آمدني جي ھڪ حد مقرر ٿيل ھوندي مٿي آمدني رکندڙ اپلاء نٿا ڪري سگھن  جھڙوڪ جنھنجو والد سرڪاري طور وڏي پگھار کڻندڙ ھجي (اھا ٻي ڳالھ آھي ته شاگرد ڪوڙو انڪم سرٽيفڪيٽ جمع ڪرائي اسڪارشپ وٺندا آھن ۔

 2 :  اسڪالرشپ ڏيندڙ اھو ڏسندا آھن ته خرچ پورا ڪري سگھو ٿا يا نه ان جي ڪري خرچ ۽ آمدني وچ ۾ فرق رکڻ لازم ھوندو آھي  ۔ اوھان جا خرچ آمدني کان ڪجھ (2/4)ھزار وڌيڪ ھجڻ گھرجن ۔

ھر اسڪارشپ ۾ اوھان جا گيس /لائٽ جا بل گھربل ھوندا آھن ڇو ته اوھان جي  انرجي ڪنزمپشن مان اندازو لڳائي سگھجي ٿو ته اوھان غريب آھيو يا امير وڏا بل جمع ڪرائڻ کان پاسو ڪيو ۔

پڙھائي جا خرچ ،ميڊيڪل جا خرچ ،فوڊ جا خرچ عام نوعيت جا لکو ۽ ھميشه لوڪل ٽرانسپورٽ واري باڪس کي ٽڪ ڪندا ڪريو۔ اگر اوھان جي انڪم 30ھزار لکيل آھي ته اوھان جا خرچ 33/34 ھزار ھجڻ گھرجن ۔ 

گھربل ڪاغذات :سيلري سلپ/انڪم سرٽيفڪيٽ /افيڊوٽ(۽ اگر واده فوت آھي ته فوتي سرٽيفڪيٽ )،اسڪارشپ زڪات واري اداري جي ھوندي ته زڪوات  چيئرمن جو سرٽيفڪيٽ ۔

ڪاغذات ڪٿان وٺجن : اوھان کي انڪم سرٽيفڪيٽ پنھنجي تعلقه جي مختيار ڪار آفيس مان وٺڻو پوندو جنھن ۾ صرف پي جي ڪارڊ جي ڪاپي ۽ ڪلارڪ يا پٽيوالي کي ٻه سو چانھن جا ته سرٽيفڪيٽ ملي ويندو (ھڃر مھانگائي جو دور آ سرٽفڪيٽ 20ھزار تائين ھجي ڇو ته ھڃر غريب جو گھر به گھٽ ۾ گھٽ 20ھزار ۾ ھلي ٿو ۔)

افيڊيوٽ اسٽامپ وينڊر واري وٽان آساني سان ملي وڃي ٿو ۔ 

زڪوات سرٽيفڪٽ پنھنجي UC زڪوات چيئرمين وٽان يا زڪوات جي ضلعي آفيس مان وٺي سگھجي ٿو ۔

چئن سالن ۾ ايندڙ اسڪارشپس :

احساس /بينظير اسڪارشپ ،سنڌ انڊومينٽ فنڊ /نيڊ ڪم بيس ،اسڪارشپس فار مائنريٽيز صرف غير مسلم ۽ ڪجھ ٻيون ۔

Interview :سڀني عملن کانپوء انٽرويو ٿنيدو آھي ،انٽرويو ۾ اوھا جو ڀريل فارم ڏسي سوال پڇيا ويندا آھن ۔  اوھان جي ڊريسنگ ،لڪ وغيره نوٽ ڪيو ويندو آھي ڪڏھن ڪڏھن موبائيل به چيڪ ڪئي ويندي آھي ان لاء سادا ڪپڙا ۽ نارمل موبائيل کڻي وڃو ۔ فارم مان سوال پڇيا ويندا آھن ته ايتري جگھٽ انڪم آھي ته اوھا فيس ڪٿان پي ڪئي؟ ۽ يوني ۾ خرچ ڪيئن ٿا ھلايو؟ ان جي ڪري اھڙن سوالن جا مطمئن ڪندڙ جواب ۽ پنھنجي ڀريل فارم مان تياري ۔

ڪري وڃو (سپلي لڳڻ سان احساس /بيظير اسڪالرشپ تي ڪو به فرق نٿو پوي ) 

plz share  for easiness of others .

(From Faiza educationist

Banana Crop in Hyderabad Sindh Pakistan and its benefits

 #ڪيلي جي ٿڙ جا ڌاڳا ۽ انھن مان ٺھندڙ شيون.


 پاڪستان ۾ ڪيلي جي پوکي 90,000 کان 100,000 ايڪڙن تي مشتمل آهي.  جنهن مان هر سال اٽڪل هڪ لک ملين ٽن ڪيلو حاصل ٿين ٿا.  


ڪيلي جا وڻ هڪ ڀيرو ميوو ڏيندا آهن.  پاڪستان سراسري طور ڏھ ٽن ڪيلا في ايڪڙ پيدا ڪري ٿو، جڏهن ته فصل لهڻ کانپوءِ چاليھ ٽن في ايڪڙ باقيات، جنھن ۾ ڪيلي جا پن ۽ ڪاٺ (ٿڙ) رھن ٿا. رڳو ڪيلي جو ڪاٺ 25 ٽن في ايڪڙ تي نڪرندو آھي.


 ڪيلي جو ٿڙ عام لڪڙي جھڙو نہ هوندو آھي، ان ڪري ٻارڻ طور استعمال نه ٿو ڪري سگهجي ۽ ڪيلي جي لاٿ کان پوءِ وڻ جي باقي بچيل شين کي تلف ڪرڻ بہ مسئلو آهي. 


انڪري هن کي اُس ۾ خشڪ ڪري، ساڙي صفائي ڪئي ويندي آھي. جنھن سان ماحولياتي آلودگي بہ وڌي ٿي.

ٻئي طرف ڏسجي تہ، خالق ڪريــم ڪيلي جي ٿڙن ۾ وڏي مقدار ۾ قدرتي مضبوط ڌاڳو رکيو آھي، جنهن جي صنعت کي موسي ٽيڪسٽائل سڏيو ويندو آهي. ٿڙ مان ڌاڳو ڪڍڻ بلڪل آسان آھي. 


ڪمند جو جو رس ڪڍڻ واري سادي مشين تہ سڀني ڏٺي ھوندي. ان سان ملندڙ جلندڙ ننڍڙي مشين آھي جنھن کي ريسپاڊرو مشين سڏجي ٿو. جنھن جي مدد سان ڪٽيل ٿڙ جي تھ کي مشين مان گذاري ڌاڳو ۽ ڳر (گودو) الڳ ڪيو وڃي ٿو.


 توهان اهو ٻڌي حيران ٿي ويندا ته دنيا ۾ ساليانو هڪ لک ٽن ڌاڳو موسي ٽيڪسٽائل ذريعي پيدا ڪيو ويندو آهي. عالمي منڊي جي حساب سان، انهي ڌاڳي جي قيمت تقريبن پاڪستاني ڪرنسي ۾ 100 روپيہ  في ڪلو  آھي. جنھن جو مطلب هڪ عام مزدور هڪ ڏينهن ۾ پندرهن کان ويهه ڪلو ڌاڳو آساني سان  ڪڍي سگهي ٿو. يعني 1500 کان 2000 ڏھاڙي.


ريسپارڊون مشين  ۾ ٻہ لوهي رولر ۽ ھڪ ننڍي موٽر لڳل هوندي آهي، جيڪڏهن هي مشين مقامي طريقي سان تيار ڪئي وڃي، تہ خرچ چاليھ/پنجاھ هزار کان مٿي نہ ايندو. ان کانسواءِ لاھور ۽ پنجاب جي ٻين شھرن ۾ بہ اھا مشين دستياب آھي. اهڙي نموني  هڪ ماڻھو چاليهه کان پنجاھ هزار روپين جي سيڙپڪاري سان روزانو ٻه هزار ڪمائي سگهي ٿو.


      ڪيلي جي ٿڙ مان حاصل ڪيل اھو ڌاڳو گهڻو مضبوط، لچڪدار ۽ نرم ٿيندو آهي. هن ڌاڳي مان گھريلو استعمال جا ڪپڙا، ڪرسين ۽ ميزن جا پوش، رومال، ٽشو، ٻارن جا ڪپڙا، دستڪاري، توريون، مسلا ۽ ٻيون اهڙيون ڪيتريون ئــي  شيون ٺاهڻ لاءِ استعمال ڪيو ويندو آهي.  ھي ڪم ماحول دوست ۽ سستو متبادل پڻ آهي.  اهو ڌاڳو فلپائن ، انڊيا ، ويٽنام ۽ ويسٽ انڊين ملڪن ۾ تمام گهڻو مشهور آهي.  پر وطنِ عزيز ۾ ماڻهو اڃا مڪمل طور تي ان کان اڻ واقف آهن.


   مزي جي ڳالهه اها آهي جو ڌاڳو ڪڍڻ کان پوءِ ٿڙن مان تمام گھڻو رس ۽ ڳر (گودو) بہ نڪري ٿو. جنھن کي سرن سان ٺھيل حوض ۾ گڏ ڪري طاقتور مرڪبن سان ڀرپور قدرتي ڀاڻ حاصل ڪري سگھجي ٿو.


 ٿڙ جي ڳر ۾ ڪجھ ڪيميائي مرڪب ملائي اعليٰ قسم جو ڪيميائي ڀاڻ ٺاھي وڪڻڻ بہ منافع بخش ڪاروبار ثابت ٿي سگھي ٿو، ان سلسلي ۾ ماھرن جي رھنمائي وٺڻ ضروري آھي.ان کان علاوه جمع ٿيل ڳر کي مخصوص مرحلن مان گذاري پلپ، ھلڪي معيار جو ڪاغذ ۽ پيڪنگ لاءِ استعمال ٿيندڙ ٻيو سامان بہ ٺاھي سگھجي ٿو. 


 ڳالھ ھتي ختم نٿي ٿئي.  ڪيلي جي ڇلڙن کي ڊسپوزيبل برتن ٺاهڻ جي لاءِ استعمال ڪيو ويندو آهي، جيڪي پلاسٽڪ ۽ اسٽائيرين جي برتن کان وڌيڪ ماحول دوست ۽ غير نقصانڪار هوندا آهن.  


ڊسپوزيبل برتن ٺاهڻ جي لاءِ هڪ ننڍڙو سانچو ۽ ڊائي جي ضرورت هوندي آهي. جنهن ۾ تھن کي ڪٽي ۽ دٻائي ڪا شڪل ڏبي آھي. انھيءَ دوران ڊائي ۾ ٿوري گرمي پڻ مهيا ڪئي وئي آھي.  ڊسپوزيبل برتن ٻنهي سڪل ۽ ساون پنن ۽ ٿڙن مان ٺاهيا وڃن ٿا.


 جيڪڏهن اسان حيدرآباد ۽ ڀرپاسي وارن علائقن ۾ جتي ڪيلي جو فصل پيدا ڪيو وڃي ٿو، هڪ ادارو قائم ڪري ماڻهن کي تربيت ڏيون، تہ يقيني طور تي ڇڏيل ۽ ڪيلي جي بقاياجات هڪ منافع بخش نعمت ثابت ٿي سگهي ٿي، اھڙي طرح خوشحالي آڻي سگهجي ٿي ۽ ماڻهن جي زندگين جو معيار بلند ڪري سگهجي ٿو

Thursday, December 8, 2022

Sharaf Din Boseri. Egypt. شرفالدين بوصيري مصر

 مصر کے ایک مشہور بزرگ شرف الدین بوصیری گزرے ہیں

انہوں نے ایک غریب گھرانے میں آنکھ کھلی

جیسا کہ والدین بچوں کو سکولوں مدرسوں میں تعلیم حاصل کرنے کیلئے بھیجتے ہیں اسی طرح بوصیری کو بھی والدین نے مدرسے بھیجنا شروع کیا

اور جلد ہی  آپ نے  قرآن پاک  حفظ کر لیا

اس کے بعد آپکے والد صاحب کی خواہش تھی کہ اب آپ کچھ کام کاج کریں تا کہ گھر سے غربت کا خاتمہ ہو

جبکہ بوصیری ابھی مزید تعلیم حاصل کرنا چاہتے تھے۔ وہ ایک زیادہ روشن مستقبل چاہتے تھے۔۔گھر میں باپ بیٹے کے درمیان کھینچا تانی شروع ہو گئی

آخر کار بوصیری نے اپنی والدہ کو اپنے ساتھ ملا کے والد سے مزید پڑھنے کی اجازت لے لی

اس کے بعد آپ نے تجوید، فقہ اور باقی ضروری مضامین کو پڑھا اور بچوں کو پڑھانا شروع کر دیا

اس وقت تک آپ ایک دنیادار شخص تھے اور مادی کامیابیوں کو ہی ترجیح دیتے تھے

آپ غربت سے نجات حاصل کرنا چاہتے تھے۔۔شاعری کا وصف آپ کو اللہ کی طرف سے ودیعت کیا گیا تھا

اب آپ بادشاہوں کی شان میں قصیدے بھی لکھتے تھے اور نئے شعراء کی اصلاح بھی کیا کرتے تھے۔درس و تدریس سے بھی منسلک تھے

ایک دن آپ گھر سے باہر کہیں جا رہے تھے جب ایک شخص نے اپکو روک کے آپ سے پوچھا

کبھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی زیارت ہوئی؟؟

اس شخص کا یہ سوال کرنا امام بوصیری کی زندگی کو بدلنے کا سبب بن گیا

اب امام بوصیری نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کا بغور  مطالعہ شروع کر دیا

آپ جوں جوں مطالعہ کرتے جارہے تھے آپ کے دل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت بڑھتی جا رہی تھی

جوں جوں وقت گزر رہا تھا آپ کے  دل میں نبی آخر الزماں  محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق کی تڑپ بڑھتی جا رہی تھی

اسی دوران میں انہیں فالج کا حملہ ہوا اور یہ صاحب فراش ہو گئے۔اسی حالت میں پندرہ سال گزر گئے

وہ بادشاہ جن کے قصیدے امام بوصیری لکھتے تھے انہوں نے پلٹ کے نہ پوچھا

آپ بہت دل گرفتگی کے عالم میں ایک رات لیٹے ہوئے تھے۔جب آپ نے سوچا کہ زندگی بھر دنیا کے بادشاہوں کے قصیدے لکھے آج کیوں نہ ان کا قصیدہ لکھوں جن کے سامنے ان بادشاہوں کی کوئی اوقات نہیں

جب ٹوٹے ہوے دل سے ، سچی محبت کے ساتھ الفاظ نکلے تو وہ اس بارگاہ میں مقبول ہوگئے جس کے بعد وہ الفاظ امر ہو گئے

اس سے پہلے بھی امام بوصیری نے عرب کے صحراؤں پہ، صحراؤں کے خیموں پہ اور خوش جمال چہروں پہ شاعری لکھی

لیکن اس رات وہ اس بدرالدجی،شمس الضحی کی شان بیان کر رہے تھے جن کی خاطر رب نے اس دنیا اور اسکی ہر چیز کو تخلیق فرمایا۔ میرا ایمان یہ ہے کہ یہ کلام  بھی رب  کی ہی دین ہے اور وہی رب ہی اسے انسان  پہ اتارتا ہے

جب آپ قصیدہ لکھ چکے تو آپ نے قلم دوات رکھی اور سو گئے

اسی رات  آپ نے خواب دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائیں ہیں اور فرمایا کہ

اٹھ بوصیری،،

امام بوصیری نے کہا

،، میں ہزار جانوں سے قربان لیکن کیسے اٹھوں،،

کیونکہ وہ فالج زدہ تھے اور اٹھنے سے قاصر تھے

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دست شفقت ان کے جسم پہ پھیرا اور فرمایا

،،اٹھ اور مجھے وہ سنا جو تو نے لکھا،،

امام بوصیری اٹھ بیٹھے اور  جھوم جھوم کے سنا رہے

مولا یا صلی وسلم۔۔۔ دایما ابا دا

اے اللہ۔ آپ دائمی اور ابدی سلامتی بھیجئے اپنے محبوب پہ

میری آنکھیں آپ کی یاد میں آنسو بہا رہی ہیں اور رواں دواں ہیں

مدینہ پاک سے ٹھنڈی ہوا آرہی ہے۔اندھیری رات میں بجلی چمک رہی ہے

میرے عشق کا تذکرہ لوگوں تک پہنچ چکا ہے۔ اب میرا راز محبت بھی نہیں چھپ سکتا اور نہ ہی میرا مرض ختم ہو گا

تیری محبت کی،   میرے آنسو اور میری بیماری گواہی دے رہے ہیں۔میں اپنے عشق کو کیسے چھپا سکتا ہوں

اے دل۔ اگر تو  حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کا عاشق نہیں تو مکہ کو دیکھ کے آنسو کیوں بہاتا ہے

کیا محبت میں رونے والا عاشق خیال کرتا ہے کہ بہتے آنسوؤں اور سوختہ دل کی آڑ میں محبت کا راز چھپا پاے گا

تیری آنکھوں کو کیا ہوا ہے کہ تو انہیں آنسو روکنے کیلئے کہتا ہے اور یہ  بہائے جا رہی ہیں

تیرے دل کو کیا ہو گیا ہے کہ سنبھلنے کی بجاے مزید غمناک ہو رہا ہے

جب رات مجھے محبوب(صلی اللہ علیہ وسلم) کا خیال آیا تو میں رات بھر جاگتا رہا۔

درد محبت نے میرے چہرے پہ آنسو اور رخساروں پہ  زردی پیدا کر دی ہے

اے غریبوں کا خیال رکھنے والے

اے دل گیروں کی دلجوئی کرنے والے

اے مظلوموں کا ہاتھ پکڑنے والے

اے سچ کہنے والے

سے گناہگاروں کا پردہ رکھنے والے

اے ازل کا نور

اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم۔۔آپکے منہ میں آپ کے دانت ایسے ہیں جیسے سیپ کے اندر قیمتی موتی

اے اللہ آپ اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم پہ ابدی اور دائمی سلامتی نازل فرمائیں

اب امام بوصیری جھوم جھوم کے پڑھ رہے ہیں اور محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی محبت کو قبول فرماتے ہوئے ان کے ساتھ سن رہے ہیں

جب قصیدہ ختم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اتنے خوش ہوے کہ انہوں  نے اپنی چادر(بردہ) اتار کے انہیں مرحمت فرمائی

اس کے ساتھ ہی انکی آنکھ کھل گئی۔ دیکھا تو چادر ان کے پاس ہی رکھی ہوئی تھی

وقت دیکھا تو تہجد کا وقت تھا

امام بوصیری پندرہ سال کے بعد ہشاش بشاش صحت مند اٹھے ۔ فالج کا کہیں دور دور تک نام و نشان بھی نہیں تھا وضو کیا اور مسجد کا رخ کیا کہ تہجد ادا کریں

گھر سے نکلے تو ایک فقیر نے آواز لگائی

،،ہمیں بھی تو سناؤ وہ قصیدہ،،

امام  بوصیری نے تجاہل عارفانہ سے کہا

کونسا؟؟

وہی جس کے بدلے یہ بردہ بھی ملا

مجذوب نے چادر کی طرف کی طرف اشارہ ک

WHY YOU ANGRY