دعا میں التجا نہیں
دعا میں التجا نہیں،
تو عرض حال مسترد
سرشت میں وفا نہیں،
تو سو جمال مسترد
ادب نہیں، تو سنگ و خشت
ہیں تمام ڈگریاں
جو حُسن خلق ہی نہیں،
تو سب کمال مسترد
عبث ہیں وہ ریاضتیں
جو یار نہ منا سکیں
وہ ڈھول تھاپ بانسری،
وہ ہر دھمال مسترد
کتاب عشق میں یہی
لکھا ہوا تھا جا بجا
بجز خیال یار کے،
ہر اک خیال مسترد
کہو سنو ملو مگر
بڑی ہی احتیا ط سے
مٹھاس بھی تو زہر ہے،
جو اعتدال مسترد
وہ شخص آفتاب ہے،
میں اک چراغ کج ادا
سو اس حسین کی بزم میں،
میری مجال مسترد
تو کیا کوئی گلاب ہے،
حَسین میرے یار سا؟
وہ لا جواب شخص ہے،
سو یہ سوال مسترد
میں معترف تو ہوں تیرا،
مگر اے چاند معذرت
کہ ذکر حُسن یار میں،
تیری مثال مسترد
حساب عمر دیکھ لو،
کہ پھر پل صراط پر
یہ نفس کے اگر مگر،
فریب چال مسترد
دعا میں التجا نہیں،
تو عرض حال مسترد
سرشت میں وفا نہیں،
تو سو جمال مسترد
مبارک صدیقی
That true . And also check the fairborn municipal court
ReplyDelete