Sunday, March 6, 2022

جنوری 17 سائیں غلام مرتضیٰ شاھ (جی ایم سید) کا جنم دن ہے 17th January Birth day of Ghualm Murtaza Shah GM SYED AND DECEMBER 1943

 دسمبر 1943ع فتح یابی کا جلوس

                                                  آج 17 جنوری سائیں غلام مرتضیٰ شاھ (جی ایم سید) کا جنم دن ہے, سائیں کی زندگی کا ہر پہلو شاندار اور با کردار رہا ہے بااصول اور سادگی پسند تہے, اس زندہ جاویداں شخصیت کا احاطہ اس چھوٹے سے مضمون میں  کرنا نا ممکن ہے, جی ایم سید علم ادب اور دانشور حلقوں میں نمایاں حیثیت رکھتے تہے, سندھی کتاب ‏جیسا میں نے دیکھا "جيئن ڏٺو آھي مون" اور سندھ شناسی "سنڌ جي ساڃاھ" یے دو ایسے کتاب ہیں جس میں مذاہب عالم اور ان کی تاریخ پر مبنی, کائناتِ, علم الانسان, تصور مذہب جیسے موضوعات پر وسیع مطالعے کا نچوڑ ہے,  دوسرا سندھ کی ساڃاہ، میں سندھ سے محبت کا اظہار ہے جس میں قدرتی وسائل جاگرافیائی خدوخال سماجی پہلو تعلیم روزگار کے مواقع اکانومکس اور اسٹیٹسک شامل ہیں یے منفرد کتاب جو ہمیشہ مسقبل کا تعین اور رہنمائی سمجھا جاتا ہے, ان کے علاوہ کافی مشہور کتاب "پیغام لطیف", "جنم گذاریم جن سان", "دیار دل داستان" بہترین تخلیقی ادب میں شمار کیے جاتے ہیں, 

سائیں فارسی پر کمال کثرت رکھتے تھے, ساتھ اردو ادب سے دلچسپی کی مثال انجمن ترقی اردو کے بنیادی ممبران میں سے تہے, 

کراچی کی ترقی میں جو تین بڑے نام گنے جاتے ہیں ان میں سے ایک نام جی ایم سید کا بہی آتا ہے, 

سائیں نے سیاسی حاصلات اور مایوسی دونوں دیکہی تہی, تحریک پاکستان میں اس کی لازوال خدمات رہیں,  23 مارچ 1940ع کو مسلم لیگ لاھور میں قراردادِ پاکستان منظور کی گئی لیکن اسے قانونی شکل دینے کیلئے کسی اسمبلی سے منظوری لینا ضروری ہوگیا تہا اور 3 مارچ 1943ع کو سندھ اسمبلی کا اجلاس بلا کر اسپیکر سندھ اسمبلی شیخ عبدالمجید سندھی کی زیر صدارت سائیں جی ایم سید نے قرارداد پاکستان منظور کرائی تہی جو غیر منقسم ہندوستان میں یے پہلی قرارداد تہی جو کسی قانون ساز اسمبلی نے پاس کی , اس خوشی میں دسمبر 1943ع میں قائداعظم محمد علی جناح اور سائیں جی ایم سید جو اس وقت سندھ مسلم لیگ کے صدر تہے سالانہ اجلاس اور جشن کا پروگرام منعقد کیا تہا اس وقت کی ایک کلپ جو ڈان نے بنائی تہی قابل دید ہے, 

اس تاریخی کلپ میں قائد اعظم اور جی ایم سید اجلاس میں کٹھے بیٹھے ہیں جبکہ اے ڈی سیز اور سیاستدان  غلام حسین ھدایت اللہ کا بیٹا ممتاز ھدایت اللہ اور حاجی عبداللہ ھارون کا بیٹا سعید ھارون پیچھے کھڑے ہیں, 

اسی طرح نہ چاہتے بھی پاکستان کی تاریخ جی ایم سید کے نام بغیر مکمل نہیں ہو سکتی,

                                                     جمال خان کالادی

ادب اور صحافت میں کیا فرق ہے DIFFERENCE BETWEEN LITERATURE AND JOURNALISM

 ادب اور صحافت میں کیا فرق ہے؟

ابونثر

چھلے دنوں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد سے ایک سوال آیا: ’’ادب اور صحافت میں کیا فرق ہے؟‘‘

جی میں تو آئی کہ بس اس مختصر جواب کو فرق، افتراق اور تفرقہ سب کا فُرقان بنادیا جائے کہ

’’وہی فرق ہے جو جناب مشتاق احمد یوسفی کی تحریر اور جناب کامران خان کی تقریر میں ہے‘‘۔

مشتاق احمد یوسفی کا نام عصرِ حاضر میں ادب کا بہت بڑا نام ہے اور جناب کامران خان کا شمار ملک کے نام وَر صحافیوں میں ہوتا ہے۔ دونوں کی گفتگو برقی ذرائع ابلاغ پر موجود ہے۔ باری باری سن لیجیے۔ ادب اور صحافت میں اب جو فرق پیدا ہوگیا ہے، معلوم ہوجائے گا۔

’ادب‘ عربی زبان کا لفظ ہے۔ عربی لغت میں اس کے متنوع مفاہیم ہیں۔ ابتدا میں یہ لفظ صرف ’ضیافت اور مہمان نوازی‘ کے لیے استعمال ہوا۔ دعوت کا کھانا تیار کرنا، دعوت پر بُلانا اور دسترخوان سجانا، سب ہی کچھ ’ادب‘ کے زمرے میں آتا تھا۔ ضیافت کرنے اور ضیافت اُڑانے والوں کے باہمی رکھ رکھاؤ سے بعد میں ایک مفہوم کا اضافہ ہوا جسے مجموعی طور پر ’شائستگی‘ کہہ سکتے ہیں۔ زمانۂ جاہلیت سے عربوں کے ہاں مہمان نوازی شرافت کا لازمہ تھی۔ ظاہر ہے، جو شخص مہمان نواز ہوگا اُس کے طور طریقے بھی شائستہ ہوں گے، حسنِ سلوک بھی ہوگا اور خوش سلیقگی بھی۔ یوں ادب کے مفہوم میں شائستگی، حسنِ سلوک اور خوش سلیقگی وغیرہ کا اضافہ ہوا۔ رفتہ رفتہ خوش بیانی، نرم گوئی اورگفتگو کے طور طریقوں کا خیال رکھنا بھی ’ادب‘ کہلانے لگا۔ سب کا مجموعہ ’آداب‘ ہوگیا۔ جس ہستی کا احترام مقصود ہو، یا جس سے دلی محبت ہو، اُس سے اچھے طور طریقے سے پیش آنا ’ادب کرنا‘ کہا گیا۔ اقبالؔ اپنے دل کو ادب سکھاتے ہوئے اُسے بھری محفل میں یوں ڈانٹتے ہیں:

خموش اے دل! بھری محفل میں چلّانا نہیں اچھا

ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں

’ادب سکھانا‘ ایک باقاعدہ عمل بن گیا۔ اس عمل کو ’تادیب‘ کہتے ہیں۔ تادیب کا ایک مفہوم سزا دینا بھی لیا جاتا ہے۔ مثلاً ’تادیبی کارروائی‘۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ والدین یا اساتذہ اپنے بچوں یا شاگردوں کو جو سزا دیتے ہیں وہ بھی اچھے طور طریقے یا نظم و ضبط سکھانے کے لیے ہوتی ہے۔ ہم نے جامعہ کراچی سے تعلیم پائی ہے۔ پچھلی صدی کی آٹھویں دہائی تک (یعنی سنہ1980ء تک) وہاں ذریعۂ تعلیم بیش تر اُردو تھا۔ جامعہ کے انتظامی اُمور بھی اُردو ہی میں سر انجام دیے جاتے تھے۔ ہمارا ‘Proctorial Department’ ’’شعبۂ تادیب‘‘ کہلاتا تھا۔ جو اُستادِ محترم ‘Chief Proctor’ ہوتے تھے اُنھیں ’’صدر مؤدِّب‘‘ کہا جاتا تھا۔ ’د‘ پر شد اور زیر کے ساتھ ’مؤدِّب‘کا مطلب ہے ادب سکھانے والا۔ ’د‘ پر زبر ہو تو مؤدَّب کا مطلب ہوگا باادب، ادب سیکھاہوا، ادب کرنے والا یا ادب سے بیٹھنے والا۔

القصہ مختصر… سلیقے، قرینے، شرافت، شائستگی اور اچھے طور طریقے سے پیش آنا ’ادب‘ ہوا تو خوش گوئی، خوش بیانی، خوش کلامی اور خوش نگاری کا شمار بھی ادب میں کیا گیا۔ اظہارِ خیال اور طرزِ نگارش کی رعنائیاں ادب کہلائیں۔ اس فن نے ترقی کی تو صَرف، نحو اور ادب کی مختلف اصناف کے قواعد مرتب کیے گئے۔ ادب کا شمار فنونِ لطیفہ میں ہونے لگا۔ فن لطیف وہ فن ہوتا ہے جس سے آپ لطف اُٹھا سکیں۔

جدید دور میں تخیل و جذبات پر مشتمل تخلیقات ہی نہیں، ہر تحریری کارنامہ ادب کا حصہ قرار دیاگیا۔ ادب کی اصطلاحی تعریفوں میں بڑی وسعت آئی۔ مثلاً ’خیالات و احساسات کا الفاظ میں اظہار ادب ہے‘۔ ’احساسات و خیالات کا وہ تمام سرمایہ جو تحریر میں آچکا ہے، ادب کہا جائے گا‘۔ ’وہ تحریر جسے اس طرح ترتیب دیا گیا ہو کہ پڑھنے والے کو آگہی اور مسرت حاصل ہوسکے، ادب کہلاتی ہے‘۔ ایک اور تعریف کے مطابق ’وہ تمام علم جو کتب کے ذریعے سے ہم تک پہنچا ہے، سب کا سب ادب ہے‘۔ اگر انسان کے طور طریقے اچھے اور برے ہوسکتے ہیں تو ادب بھی اچھا اور برا ہوسکتا ہے۔ اگر اظہارِ خیال کو تعمیری اور تخریبی قرار دیا جا سکتا ہے تو ادب بھی تعمیری یا تخریبی ہوسکتا ہے۔

صحیفہ لکھی ہوئی چیز کو کہتے ہیں۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو لکھی ہوئی تختیاں عطا کی گئی تھیں۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام پر بھی صحیفے نازل ہوئے۔ سورۃ الاعلیٰ کی آخری آیت میں ’’صُحُفِ اِبْرٰھِیْمَ وَ مُوْ سیٰ‘‘ کا ذکر ہے، جس سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ ’صحیفہ‘ بہت پرانی چیز ہے۔ جس طرح آسمانی صحافت انسان کو خبردار کرنے کے لیے تھی اُسی طرح انسانی صحافت بھی لوگوں کو باخبر رکھنے کے لیے وجود میں آئی۔ ابتدا میں صحافت صرف حکمرانوں اور کار پردازانِ حکومت تک خبریں پہنچانے کے لیے استعمال ہوئی۔ سکندراعظم نے بھی اس کا باقاعدہ نظام قائم کیا اور سیدنا عمر فاروق ؓنے بھی۔ یہ فن مسلسل ترقی کرتا رہا۔ آخر مقررہ وقت پر شائع ہونے والے اخبارات و جرائد ’صحیفہ‘ کہلانے لگے۔ اطلاعات کے جدید آلات میسر آئے تو ’صحافت‘ کا مضمون پہلے ’ابلاغِ عامہ‘، پھر بڑھتے بڑھتے’ علوم ابلاغیات‘ ہوگیا۔

برصغیر میں اُردو صحافت کا آغاز ہی اہلِ ادب نے کیا۔ کچھ عرصہ پہلے تک اردو صحافت پر ادب اور شائستگی کی گہری چھاپ تھی۔ مولانا محمد حسین آزاد کے والد اور برصغیر میں جرمِ حق گوئی پر شہید کیے جانے والے پہلے صحافی مولوی محمد باقر شہید کے ’اردو اخبار‘، مولانا محمد علی جوہرؔ کے ’ہمدرد‘، سرسید احمد خان کے ’تہذیب الاخلاق‘، مولانا ابوالکلام آزادؔ کے ’الہلال‘ و ’البلاغ‘، مولانا حسرتؔ موہانی کے ’اُردوئے معلی‘، مولانا ظفر علی خان کے ’زمیندار‘، خواجہ حسن نظامی کے ’منادی‘، مولانا عبدالماجد دریا بادی کے ’صدق‘ اور مولانا عبدالمجید سالک و مولانا غلام رسول مہرؔ کے ’انقلاب‘ وغیرہ وغیرہ، اور بعد میں پاکستان سے جاری ہونے والے متعدد اخبارات و رسائل نے اُردو صحافت کو ادبی وقار عطا کیا۔ ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی وژن کارپوریشن نے بھی اپنی صحافت کو شائستہ اور شستہ رکھنے کے لیے ادیبوں کی سرپرستی حاصل کی۔تب تک ہماری اردو صحافت ہماری ہی تہذیبی اقدار کی نمائندہ تھی اوراس کا ذریعۂ اظہار ہماری ہی زبان تھی اور ہمارا ہی ادب تھا۔

سرمایہ دارانہ نظام کے غلبے نے افرادِ قوم میں ’سرمایہ پرستی‘ کو فروغ دیا۔ پیسا کمانے کی دوڑ میں تعلیمی ادارے بھی تجارتی ادارے بن گئے۔ تمام تعلیم و تربیت پیسا کمانے والے گُرسکھانے کا ذریعہ بن گئی۔ لہٰذاابلاغی ادارے بھی اب سوائے پیسا کمانے کے، کچھ نہیں کماتے۔ شرافت، شائستگی، حتیٰ کہ خود اپنے ہی عملے سے انسانی ہمدردی بھی پیسے کی ہوس کے بھاڑ میں جھونک دی گئی ہے۔ بقولِ اقبالؔ:

تا تہ و بالا نہ گردد ایں نظام

دانش و تہذیب و دیں سودائے خام

جب تک یہ سارا [سودی سرمایہ داری] نظام زیر وزبر اورتہ و بالا نہ کرڈالا جائے تب تک دین و دانش اور تہذیب وغیرہ سب بے کار باتیں رہیں گی۔

ادب اور صحافت میں جو فرق تھا یا جو فرق ہونا چاہیے اُسے ہم یوں بیان کرسکتے ہیں کہ ادب تخیل، تفکر، جذبات، احساسات، عقل و دانش، علم، تحقیق اور تجزیے کے ذریعے سے معاشرے کی ذہنی سطح کو بلند کرتا ہے، اور صحافت قومی و معاشرتی اقدارو روایات کی روشنی میں عامۃ الناس کو حالات سے باخبر رکھنے کا کام کرتی ہے۔ صحافت کی زبان سہل اور عام فہم ہوتی ہے۔ رائے عامّہ کی رہنمائی کرتی ہے۔ ابلاغی ادارے قومی تقاضوں کے مطابق عوام کو خبر، تعلیم اور تفریح مہیا کرتے ہیں۔ مگر ہمارے ابلاغی ادارے دولت کی ہوس میں جو کچھ مہیا کررہے ہیں، سب اس کے برعکس ہے۔ جھوٹ، بد زبانی، بدتہذیبی،  الزام تراشی، دشنام طرازی۔ غلط اطلاعات۔ جہالت و جاہلیت کی تبلیغ۔ بے حیائی، فحاشی۔ غیر ملکی ثقافتوں اور بدیسی زبانوں کا فروغ۔ قوم کی مایوسی، پژمردگی اور فشارِ خون میں اضافہ کرنے والے جھگڑالو ’ٹاک شوز‘ وغیرہ، وغیرہ۔ شعبۂ ابلاغیات میں ہمہ گیر اصلاحات کی ضرورت ہے۔ مگر اِس حبس کا خاتمہ کرنے کے لیے ’کون اُٹھے اورکھڑکی کھولے‘۔

HAZRAT USMA RA AND HAZRAT ABU BAKAR SIDDIQUE

 السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

جمعہ اسپیشل 

ذات النطاقین 

تپتی دوپہر اور دھوپ کی حدت سے مانو پوری وادی کملائی ہوئی تھی کہ یکایک دروازے پر مدھم سی دستک ہوئی، ایسی ملائم دستک، جیسے کوئی ہوا کا جھونکا کواڑ چھو کہ گزرا ہو۔ بابا جان بے تابی سے بیرونی دروازے کی جانب بڑھے۔  اندر آنے والی شخصیت انہیں دونوں جہانوں سے عزیز تر تھی۔ دونوں کے مابین کافی دیر راز و نیاز رہا۔ ان کے جاتے ہی بابا جان نے مجھے اور چھوٹی بہن کو 

زاد راہ تیار کرنے کہا۔ اوہ !!!  تو گویا بالآخر وہ لمحہ آن ہی پہنچا۔ پورے گھر میں ایک دبا دبا سا جوش اور چہل پہل تھی۔ رات آدھی گذر چکی تھی ، یہ آتی سردیوں کی رات تھی کہ بابا جان کے معزز دوست آئے ۔ بابا جان اور ان کے دوست لمبے اور پر خطر سفر کے لیے پوری طرح سے تیار تھے۔ کھانے کی پوٹلی باندھنے کے لیے ڈوری نہیں ملی تو میں نے جلدی سے اپنی کمر کا پٹکا کھولا اور اس کے دو ٹکڑے کر کے پوٹلی کا منہ مضبوطی سے باندھ دیا۔ وہ صفر کی ستائسویں شب تھی اور مدھم چاند کی روشنی میں دونوں معززین مکان کی پچھلی کھڑکی سے نکل کر مسفلہ کی گلیوں میں گم ہو گئے۔ ہم دونوں بہنیں کھڑکی سے لگیں ، اندھیرے میں گم ہوتے دونوں مسافروں کے لیے دعا گو تھیں۔ 


ستائیس صفر سنہ 14 نبوت مطابق 622 عیسوی  کی بارہ، تیرہ ستمبر کی درمیانی شب کو سفر پر نکلنے والے جلیل القدر اشخاص کوئی اور نہیں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے عزیز ترین دوست حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے ۔ وہ بابرکت سفر، ہجرت مدینہ تھا اور اس قصے کی راویہ حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہا تھیں۔

وہی خوش نصیب اسماء جنہوں نے اپنے کمر کے پٹکے کو پھاڑ کر دو ٹکڑے کیا تا کہ کھانے کی پوٹلی کا منہ باندھا جا سکے اور بدلے میں آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جنت کی نوید پائی اور لقب

"ذات النطاقین " سے سرفراز کی گئیں۔ 


حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ گھر سے نکل کر یمن جانے والے راستے کی راہ لی۔ اس راستے پر کوئی پانچ میل کا فیصلہ طے کر کے ثور کے پہاڑ پر پہنچے اور یہاں تین راتیں یعنی جمعہ، سنیچر اور اتوار چھپ کر گذاریں۔ اس دوران حضرت ابو بکر کے بیٹے عبداللہ بن ابی بکر بھی تہائی رات یہاں گزارتے اور مکے میں ہونے والی گفتگو اور سرگرمیوں سے دونوں معززین کو آگاہ کرتے اور مکہ میں قریش کے ساتھ یوں صبح کرتے، گویا انہوں نے رات یہیں گذاری ہو ۔ ادھر حضرت ابو بکر صدیق کے غلام حضرت عامر بن فہیرہ بکریاں چراتے رہتے اور جب رات کا ایک حصہ گذر جاتا تو بکریاں لے کر ان کے پاس پہنچ جاتے۔ اس طرح دونوں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ آسودہ ہو کر دودھ پی لیتے۔ حضرت عامر بن فہیرہ، حضرت عبداللہ بن ابی بکر کے مکے جانے کے بعد ان کے قدموں کے نشانات پر بکریاں ہانکتے تھے تاکہ ان کے قدموں کے نشانات مٹ جائیں۔ 

ہجرت کی رات گزر گئی، جب سحر ہوئی اور سرداران قریش نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بستر پر نہ پایا تو غصے سے بالکل پاگل ہو گئے۔ پہلے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو زد و کوب کیا پھر ابو جہل نے حالت طیش میں حضرت ابو بکر صدیق کا دروازہ دھڑ دھڑا دیا۔ گھر میں اٹھ ماہ کی حاملہ حضرت اسما بنت ابی بکر اور نا بینا دادا اور چھوٹی بہنوں کا ساتھ تھا ، بے بسی سی بے بسی کہ پورے مکہ میں کوئی ایک بھی حمایتی اور طرف دار نہیں۔ حضرت اسماء فطری طور پر نہایت جری و خاتون تھیں، سو بے خوفی سے دروازہ کھولا۔

 سامنے ابو جہل قہر کی تصویر بنا کھڑا تھا۔ گرج کر پوچھا " تیرا باپ اور اس کا دوست کہاں ہیں؟"

حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے تحمل سے جواب دیا کہ "مجھے نہیں معلوم۔"

یہ سننا تھا کہ اس بد بخت لحیم شحیم ابو جہل نے پوری قوت سے حضرت اسماء کے رخسار پر تھپڑ رسید کیا کہ ان کا کان زخمی ہو گیا اور کان کی بالی کہیں دور جا گری۔ 


حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا بیان کرتیں ہیں کہ جب میں مدینہ پہنچی تو میرے یہاں عبداللہ کی ولادت ہوئی۔ یہ بہت خوشی کا موقع تھا کیوں کہ یہودیوں نے یہ افواہ پھیلا رکھی تھی کہ ہم نے مکہ کے مہاجروں پر جادو کر کے ان کا سلسلہ نسل منقطع کر رکھا ہے، اس لیے اب ان کے یہاں کبھی کوئی اولاد پیدا نہیں ہو سکتی۔ یہ بھی عجیب اتفاق ہی تھا کہ اتنے عرصے میں مہاجرین میں سے کسی کے گھر بھی ولادت نہیں ہوئی تھی۔ عبداللہ بن زبیر کی پیدائش پر مدینہ نعرہ تکبیر سے گونج اٹھا تھا۔ حضرت عبداللہ کی پیدائش کے بعد، حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا رسول خدا کی خدمت میں پیش ہوئیں اور انہیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گود میں ڈال دیا۔ آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھجور طلب فرمائی اور اسے چبا کر عبداللہ کے منہ میں رکھی۔ چنانچہ، سب سے پہلی چیز جو عبداللہ کے پیٹ میں گئی وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا لعاب دہن تھا، پھر آپ نے حضرت عبداللہ بن زبیر کے لیے دعا فرمائی۔ یہ ہجرت کے بعد مدینہ میں پیدا ہونے پہلے مسلمان بچے تھے۔ 


نام۔ اسما، لقب ۔ ذات النطاقین۔

نسب۔ حضرت اسماء بنت ابو بکر صدیق بن ابو قحافہ عثمان بن عامر بن عمرو بن کعب بن سعد بن تیم بن مرہ بن لؤی القریش۔

حضرت اسماء بنت ابی بکر کی والدہ کا نام قتیلہ بنت عبدالعزی تھا اور ان سے حضرت ابو بکر کی دو اولادیں تھیں، حضرت اسماء بنت ابی بکر اور حضرت عبداللہ بن ابی بکر۔ قتیلہ چوں کہ مسلمان نہیں ہوئی تھیں سو ان سے نکاح باطل ہوا۔ حضرت اسماء کے دوسرے بھائی بہن ، حضرت عائشہ، حضرت ام کلثوم، حضرت محمد،  اور حضرت عبدالرحمان دوسری دو ماؤں سے تھے۔ 


حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہجرت مدینہ سے ستائیس سال قبل مکے میں پیدا ہوئیں۔ ان کے نانا عبدالعزی قریش کے سردار اور دادا ابو قحافہ جو فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہوئے معززین مکہ میں شمار ہوتے تھے۔ 

حضرت اسماء نے گیارہ سال کی عمر میں اسلام قبول کیا اور دائرہ اسلام میں داخل ہونے والوں میں ان کا نمبر پندھرواں ہے۔ ان کا شمار سابقون الاولون میں ہے۔ یہ شروع ہی سے راست گو، حق پرست اور نڈر تھیں۔ ان کا نکاح حضور صلی اللہ علیہ وآلہ کے کی پھوپھی، حضرت صفیہ کے بیٹے جو حواری رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  ہیں، یعنی، "حضرت زبیر بن العوام" سے ہوا۔ حضرت زبیر سے انہیں پانچ بیٹے اور تین بیٹیاں ہوئیں۔ حضرت عبداللہ بن زبیر، حضرت عروہ بن زبیر، حضرت منذر بن زبیر، حضرت مہاجر بن زبیر اور حضرت عاصم بن زبیر اور بیٹیاں حضرت خدیجہ بنت زبیر، حضرت ام الحسن بنت زبیر اور حضرت عائشہ بنت زبیر۔ 

حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں کہ جب میری زبیر سے شادی ہوئی تو وہ بہت تنگ دست اور مفلس تھے۔ ان کی کل متاع ایک گھوڑا اور اونٹ تھا۔ بچوں کی دیکھ بھال، گھر کے کام کاج، میں آٹا گوندھ لیتی تھی پر روٹیاں میری ہمسائی انصار عورتیں بنا دیا کرتیں تھیں، گھر کے لیے پانی بھر کر لانا، ڈول سینا اور اس کے ساتھ ساتھ گھوڑے اور اونٹ کا چارا پانی لانے کی ذمہ داری بھی مجھ پر تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زبیر کو مدینہ سے دو میل کی مسافت پر تھوڑی سی زمین عنایت کی تھی اور میں وہاں سے کجھور کی گٹھلیاں چن کر سر پر گٹھری رکھ کر لاتی اور ان گٹھلیوں کو کچل کر اونٹ کو دیتی۔ حضرت اسماء بیان کرتیں ہیں کہ "ایک دن میں سر پر گٹھلیوں کی گٹھری رکھ کر لا رہی تھی کہ راستے میں مجھے دیکھ کر حضور صلی اللہ علیہ وآلٰہ وسلم نے اپنے اونٹ کو بیٹھا دیا، مگر مجھے حجاب مانع تھا اور میں حضرت زبیر کی غیرت سے بھی واقف تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے گریز کو محسوس کر لیا اور آگے روانہ ہو گئے۔" جب حضرت اسماء نے یہ روداد حضرت زبیر کو سنائی تو انہوں نے جواباً کہا کہ مجھے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تو غیرت نہیں مگر مجھے تمہاری اس کڑی مشقت کا دکھ ضرور ہے۔  جب حضرت ابوبکر  صدیق نے حضرت اسماء کو ایک غلام تحفہ میں دیا تو ان کی زندگی خاصی حد تک آسان ہو گئی کہ وہ غلام باہر کے کاموں کے ساتھ ساتھ گھوڑے اور اونٹ کی دیکھ رکھ کرنے لگا۔ 

حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک لمبا عرصہ ساتھ گذارا، ان کے آٹھ بچے ہوئے لیکن حضرت زبیر کے مزاج کی تیزی کے باعث آئے دن کے گھریلو تنازعات اتنا بڑھے کے بات طلاق پر منتج ہوئی۔ حضرت زبیر سے طلاق کے باوجود وہ ہمیشہ ان کا ذکر نہایت احترام سے کرتی تھیں۔ طلاق کے بعد حضرت اسماء اپنے بیٹے حضرت عبداللہ بن زبیر کے ساتھ رہنے لگیں۔  


جب امیر معاویہ نے اپنی زندگی میں یزید کو خلیفہ نامزد کیا تو حضرت عبداللہ بن زبیر نے اس فیصلے کی شدت سے مخالفت کی۔ حضرت امیر معاویہ کی وفات کے بعد جب یزید کے قاصد ، حضرت عبداللہ بن زبیر سے بیعت لینے آئےتو یہ ایک دن کی مہلت لے کر مدینہ سے نکل کر مکہ چلے آئے اور حدود حرم میں پناہ لی۔ ان کی پیہم کوششوں کے نتیجے کے طور پر اہل حجاز نے اموی خلافت کے خلاف علم بغاوت بلند کر دیا۔ حضرت عبداللہ بن زبیر نے سات برس حکومت کی۔ یزید نے مسلم بن عقبہ کو حضرت عبداللہ بن زبیر کے قتل کے احکامات دئیے اور مسلم بن عقبہ مدینہ میں لشکر کشی کر کے مکے کی جانب بڑھا لیکن ابوا کے مقام پر اجل کا شکار ہوا۔ اس کے بعد حصین بن نمیر نے فوج کی قیادت سنبھالی اور مکہ پر حملہ آور ہوا اور شدید سنگ باری کی جس کی زد میں کعبہ بھی آیا۔ ابن نمیر نے چونسٹھ دن تک مکہ کا محاصرہ جاری رکھا، جب اسے یزید کی موت کی اطلاع ملی تو اس نے حضرت عبداللہ بن زبیر کو خلافت کی پیشکش کی اور ان کے ہاتھ پر بیعت کرنے کو تیار بھی، مگر حضرت عبداللہ بن زبیر نے انکار کیا اور کہا کہ " جب تک میں ایک ایک حجازی کے بدلے دس دس شامیوں کو قتل نہ کر لوں، کچھ نہیں ہو سکتا" .

یوں اس جذباتی فیصلے سے ایک بہترین موقع ہاتھوں سے نکل گیا۔

عبدالملک بن مروان مسند حکومت پر بیٹھا تو اس نے شقی القلب اور سفاک ترین جرنیل حجاج بن یوسف ثقفی کو ایک بڑی فوج کے ساتھ مکہ پر حملہ آور ہونے کا حکم دیا۔ حجاج نے مکہ پہنچتے ہی مکہ کا محاصرہ کر لیا اور کعبہ پر سنگ باری بھی کی۔ طویل محاصرے کے باعث مکہ میں قحط سالی ہو گئ۔ حضرت عبداللہ بن زبیر نے جم کر بے جگری سے مقابلہ کیا مگر کب تک؟ بیشتر ساتھی شہید ہوئے اور کئی حالات کی سختیوں سے گھبرا کر ان کا ساتھ چھوڑتے چلے گئے، شکست اب یقینی تھی سو حضرت عبداللہ ماں سے مشورے کے طالب ہوئے۔ حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا 

" اے میرے لخت جگر !! موت کے خوف سے غلامی کی ذلت قبول کرنا جرآت مند مومن کا شیوہ نہیں۔ حق و صداقت میں شہادت فائق۔ اگر تم حق پر ہو تو لڑتے ہوئے شہادت کے عظیم مرتبے پر فائز ہو جاؤ اور اگر یہ سب دنیا کے لیے تھا، تو تم نے اپنی اور اپنے ساتھیوں کی عاقبت خراب کر لی۔ میری تمنا ہے کہ تم راہ حق میں شہید ہو جاؤ، میں صبر کر لوں گی اور اگر کامیاب ہو گئے تو یہ کامیابی میری خوشی کا باعث ہوگی"

آخری بار ماں نے بیٹے کو مقتل میں بھیجنے سے پہلے گلے لگایا تو انہیں زرہ کی کڑیاں چبھیں، 

پوچھا یہ زرہ کیوں؟

حضرت عبداللہ بن زبیر نے جواب دیا کہ اطمینان کے لیے۔ حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ" بیٹا ! شہادت کے آرزو مند دنیاوی اطمینان سے سے بےنیاز ہوتے ہیں۔"

حضرت عبداللہ بن زبیر نے اپنی شہادت کے بعد اپنے لاش کے مثلہ کیے جانے کے خدشے کا اظہار کیا تو حضرت اسماء نے کہا " جان ام !! بکری جب زبح ہو جاتی ہے تو اسے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کے اس کی کھال اترتی ہے یا اس کی بوٹی کا قیمہ بنتا ہے۔ اصل چیز روح ہے جو اپنے مقام پر پہنچ چکی ہوتی ہے۔ "

بہادر ماں سے رخصت ہو کر حضرت عبداللہ بن زبیر نے کفن پہنا اور اپنی مٹھی بھر جان نثاروں کو لے کر مخالف فوج پر ٹوٹ پڑے اور جلد ہی شہادت کے رتبے پر فائز ہوئے۔ ان کا سر قلم کر کے حجاج کو پیش کیا گیا اور جسد خاکی کو بیت اللہ کے پرنالے پر لٹکا دیا گیا، ایک روایت کے مطابق حجون کے بازار میں لٹکایا گیا۔

جب تین دن گذر گئے تو نا بینا ماں بیٹے سے ملنے آئیں اور شہید اسلام کی الٹی لٹکی ہوئی لاش کو شہادت پر مبارک باد دی اور کہا کہ " کیا اس سوار کے گھوڑے سے اترنے کا وقت ابھی نہیں آیا ؟"

حجاج نے حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کہا کہ دیکھو میں نے دشمن خدا کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ 

حضرت اسماء نے جواب دیا کہ تو نے اس کی دنیا بگاڑی اور اس نے تیری عاقبت خراب کر دی۔ پھر حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنی روایتی بے جگری سے اس ظالم کو مخاطب کیا اور فرمایا کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا تھا کہ " بنو ثقیف سے ایک کذاب اور ظالم پیدا ہو گا۔ کذاب مختار ثقفی کو میں دیکھ چکی اور ظالم تو ہے۔ "

حجاج نے یہ حدیث سنی تو خاموشی سے وآپس چلا گیا۔

چند دن بعد عبدالملک نے لاش اتروانے کا حکم دیا تو حجاج نے لاش اتروا کر یہودیوں کے قبرستان میں پھنکوا دی۔ 

حضرت عبداللہ بن زبیر کی شہادت پہلی اکتوبر سنہ 692 میں بہتر سال کی عمر میں ہوئی۔ حضرت اسماء نے انہیں تکریم کے ساتھ مکہ کے قبرستان میں دفن کروایا اور پھر اس سانحے کے دس یا بیس دن کے بعد  جمادی الاول 73 ہجری میں  سو سال کی عمر میں دار فانی کو الوداع کہا اور مکہ مکرمہ کے قبرستان میں دونوں ماں بیٹے کی قبریں برابر برابر ہیں۔ 

انا للہ وانا الیہ راجعون 


حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہا نہایت پر اعتماد، نڈر، بے خوف اور دل گردہ والی خاتون تھیں ، جو کلمہ حق کسی بھی متکبر چاہیے وہ ابوجہل جیسا فرعون امت ہو یا حجاج جیسا شقی القلب، کسی کے سامنے کہنے سے لمحے بھر کے لیے بھی نہیں جھجکتں تھیں۔ 

پہلے پہل غربت کے باعث، حضرت اسماء جو کچھ صدقہء خیرات کرتیں، ناپ تول کر کرتی تھیں۔ انہیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس روش سے منع فرمایا اور کہا کہ پھر اللہ تعالیٰ تمہیں بھی ناپ کر دے گا۔ اس فرمان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد ، باوجود مفلسی کے وہ کھل کر صدقہ خیرات کرنے لگیں اور اس کے ساتھ ہی تنگ دستی بھی جاتی رہی۔ 

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنی وفات کے وقت ترکہ میں ایک جنگل چھوڑا تھا جو حضرت اسماء کے حصے میں آیا تھا۔ اس جنگل کو ایک لاکھ درہم میں فروخت کر کے کل رقم ضرورت مند عزیزوں میں تقسیم کر دی۔

ایک دفعہ ان کی مشرکہ ماں ان سے ملنے مدینہ آئیں تو حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت فرمایا کہ مشرک ماں کے ساتھ کیسا معاملہ کروں؟

رحمت العالمین کا ارشاد مبارک تھا کہ اپنی ماں کے ساتھ صلہ رحمی کرو۔ 

حضرت اسماء نے کئی حج کئے، پہلا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اور پھر حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ساتھ بھی حج کیا۔ حج کے زمانے میں ان کا معمول تھا کہ حاجیوں کو مناسک حج پر درس دیا کرتیں۔

حضرت اسماء بیمار پڑتیں تو اپنے تمام غلام آزاد کر دیتی تھیں۔ حضرت اسماء کے تقدس کا عام چرچا تھا اور لوگ ان سے دعا کروانے کے لیے آیا کرتے تھے۔۔ جب کوئی عورت بخار میں مبتلا ہوتی اور دعا کے لیے آتی تو اس کے سینہ پر پانی چھڑکتیں ور کہتیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ بخار کو پانی سے ٹھنڈا کرو۔ انہوں نے کافی ساری روایات رقیہ، حجاب، حیض اور عورتوں سے متعلق مسائل پر بیان کیں ہیں۔ 

حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہا بے انتہا نڈر خاتون تھیں اور انہوں نے اپنے میاں اور اپنے چودہ سالہ بیٹے حضرت عبداللہ کے ساتھ جنگ یرموک میں حصہ لیا تھا۔ حضرت سعد بن عاص کے دور میں، جب مدینہ میں 

بہت بد امنی پھیل گئی تو وہ اپنے سرہانے خنجر رکھ کر سویا کرتی تھیں تا کہ ڈاکوؤں اور چوروں سے مقابلہ کر سکیں۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے چھپن احادیث روایت کیں ہیں جو صحیحین اور سنین میں موجود ہیں۔ راویوں میں حضرت عبداللہ، حضرت عروہ، حضرت عباد بن عبداللہ، حضرت عبداللہ بن عروہ ، حضرت فاطمہ بنت المنذر، حضرت عبادہ بن حمزہ بن عبداللہ بن زبیر، حضرت ابن عباس، حضرت صفیہ بنت شیبہ ابن ابی ملیکہ اور حضرت وہب بن کیسان شامل ہیں۔ 


حوالاجات

صحیح البخاری 3905

سیرت ابن اسحاق صفحہ 344

صحیح البخاری 3909

صحیح البخاری 5224

الرحیق المکتوم

لیکچر شیخ عمر سلیمان 


از قلم

شاہین کمال

کیلگری

قرآن میں مذکور 13 قسم کے دل ‏ایک قرآنی ریسرچ کےمطابق 13 KINDS OF HEART ACCORDING TO RESEACH OF QURAAN

 قرآن میں مذکور 13 قسم کے دل ‏ایک قرآنی ریسرچ کےمطابق ‘اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں 13 دلوں کا ذکر کیا ہے۔ یہ 13 قسم کے لوگ ہیں۔ آپ اللہ کی طرف سے 13 لوگوں کی تقسیم ملاحظہ کیجیے. *1- قلب سلیم* اللہ کی نظر میں پہلا دل قلب سلیم ہے۔یہ وہ دل(لوگ)ہیں جو کفر‘نفاق اور گندگی سےپاک ہوتے ہیں۔یہ لوگ ذہنی اور جسمانی گندگی بھی نہیں پھیلاتے،خود بھی نفاق اور کفر سےپاک رہتے ہیں اور دوسروں کو بھی ان سے بچا کر رکھتے ہیں‘ اللہ کو یہ دل اچھے لگتے ہیں۔ *2- قلب منیب* دوسرا دل قلب منیب ہے۔ (سورۃ الشعراء ، آیت 89)‏ یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ سے توبہ کرتے رہتے ہیں اور اس کی اطاعت میں مصروف رہتے ہیں۔آپکو زندگی میں بے شمار ایسے لوگ ملیں گے جو اللہ کی اطاعت میں گم رہتے ہیں۔یہ اللہ سے ہر وقت توبہ کےخواستگار رہتےہیں۔اللہ منیب لوگوں کو بھی پسند کرتا ہے۔ *3- قلب مخبت* (سورۃ ق ، آیت 33) تیسرا دل قلب مخبت ہے۔یہ وہ لوگ ہیں جو جھکےہوئے‘مطمئن اور پرسکون ہوتےہیں۔میں نےزندگی میں عاجز لوگوں کو مطمئن اور پرسکون پایا‘ عاجزی وہ واحد عبادت ہے جس کےبارےمیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا’’جو بھی اللہ کےلیےعاجزی اختیار کرتاہے،اللہ اسکو بلند کر دیتا ہے *4- قلب وجل* چھوتھا دل قلب وجل ہے (سورۃ الحج ،آیت 54)‏یہ وہ لوگ ہیں جو نیکی کےبعد بھی ڈرتےرہتےہیں کہ اللہ ہماری یہ نیکی قبول کرےیا نہ کرے۔یہ لوگ ہر لمحہ اللہ کےعذاب سےبھی ڈرتےہیں۔یہ جانتےہیں اللہ نےاپنےانبیاء کو بھی غلطیوں کی سزا دی‘چنانچہ یہ اپنی بڑی نیکی کوبھی حقیر سمجھتے ہیں‘اللہ کو یہ لوگ بھی پسند ہیں۔‏ *5۔ پانچواں دل قلب تقی* ہے،یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کے شعائر کی تعظیم کرتے ہیں۔ یہ ان شعائر کی عبادت کی طرح تعظیم کرتے ہیں‘ یہ لوگ اگر کسی مجبوری سے عبادت نہ کر سکیں تو بھی روزہ داروں کے سامنےکھاتےپیتے نہیں اور یہ نماز اور اذان کے وقت خاموشی اختیار کرتے ہیں‘ اللہ کو یہ لوگ بھی پسند ہیں۔‏ *6۔ چھٹا دل قلب مہدی* ہے‘یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کے فیصلوں پر بھی راضی رہتے ہیں اور بخوشی قبول کر لیتے ہیں۔ اللہ کو یہ لوگ بھی پسند ہیں۔زندگی میں کبھی ایسے لوگ خسارے میں نہیں ھوتے۔اللہ انکےلیےبرائی کے اندر سے اچھائی نکالتا ہے۔لوگ ان کے لیے شر کرتے ہیں لیکن اللہ اس شر سے خیر نکال دیتا ہے‏ *7۔ ساتواں دل قلب مطمئن* ہے۔یہ وہ لوگ ہیں جن کو اللہ کےذکر سے سکون ملتا ہے۔ یہ دن رات اللہ کا ذکر بھی کرتا رہتے ہیں ہے۔آپ بھی اگر ملال اور حزن سے بچنا چاہتے ہیں تو آپ تسبیح شروع کر دیں‘ آپ کا دل اطمینان اور خوشی سے بھر جائے گا‘ درود شریف اور لاحول ولا قوۃ الاباللہ بہترین تسبیحات ہیں‏ *8۔ آٹھواں دل قلب حئی* ہے،یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کی نافرمان قوموں کا انجام سن کر ان سے عبرت حاصل کرتے ہیں۔ کم تولنا‘جھوٹ‘ شر پھیلانا،شرک‘کفر اور تکبر‘برائی کی ترویج کرنے وغیرہ کو اپنی زندگیاں سے پاک کر لیتے ہیں اللہ کی نظر میں وہ لوگ قلب حئی ہوتے ہیں اور اللہ انھیں بھی پسند کرتا ہے۔‏ *9۔ نواں دل قلب مریض ہیں* یہ وہ لوگ ہیں جو شک‘ نفاق‘ بداخلاقی‘ ہوس اور لالچ کا شکار ہوتے ہیں۔ہم لوگ لالچ‘ ہوس‘ بداخلاقی‘ نفاق اور شک کو عادتیں سمجھتے ہیں جب کہ حقیقت میں یہ روح اور دماغ کی بیماریاں ہیں اور جو لوگ ان بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں وہ اذیت ناک زندگی گزارتے ہیں‘‏اللہ ان لوگوں اور ان کے دلوں کو مریض سمجھتا ہے‘ میرا دعویٰ ہے آپ اپنی زندگی میں صرف شک کا مرض پال لیں آپ چند برسوں میں دل‘ پھیپھڑوں‘گردوں اور جسمانی دردوں کی دوائیں کھانے پر مجبور ہو جائیں گے اور آپ بس شک کی عادت ترک کر دیں آپ کی ادویات کم ہونے لگیں گی‘ آزمائش شرط ہے۔‏ *10۔۔دسواں دل قلب الاعمی* ہے۔یہ وہ لوگ ہیں جو دیکھتےہیں اور نہ سنتےہیں۔ یہ بےحس لوگ ہوتے ہیں۔اللہ انھیں اندھےاور بہرےلوگ کہتا ہے اور مومنوں کو حکم دیتا ہےتم بس انھیں سلام کرو اور آگےنکل جاؤ۔انہیں سمجھانےکی کوشش کریں گےتو آپکا بلڈ پریشر بڑھ جائےگاچنانچہ آپ بھی اللہ کی نصیحت پر عمل کریں‏ *11۔ گیارہواں دل قلب اللاھی* ہے۔یہ وہ دل ہے جو قرآن سے غافل اور دنیا کی رنگینیوں میں مگن ہے۔اللہ ان غافل لوگوں کو بھی پسند نہیں کرتا اور یہ بھی بالآخر عبرت کا نشان بن جاتے ہیں *12۔ بارہواں دل قلب ا لآثم* ہے۔یہ وہ لوگ ہیں جو حق پر پردہ ڈالتے اور گواہی چھپاتے ہیں‘ آپ تاریخ پڑھ لیں آپ گواہی چھپانے اور حق پر پردہ ڈالنے والے معاشروں اور لوگوں کو تباہ ہوتے دیکھیں گے‘ اللہ کو یہ لوگ بھی پسند نہیں۔ (اٰثِمٌ قَلْبُهٗ ، سورۃ البقرہ ، آیت 283)‏ *13۔ تیرہواں اور آخری دل متکبرہوتا ہے* ۔یہ لوگ تکبر اور سرکشی میں مبتلا ہوتے ہیں اور اپنی دین داری کو بھی گھمنڈ بنا لیتے ہیں یوں یہ ظلم اور جارحیت کا شکار ہو جاتے ہیں۔کبر، اللہ کا وصف ہے، اللہ یہ وصف کسی انسان کے پاس برداشت نہیں کرتا‏چنانچہ معاشرہ ہو‘ ملک ہو یا پھر لوگ ہوں تاریخ گواہ ہے یہ فرعون اور نمرود کی طرح عبرت کا نشان بن جاتے ہیں‘ دنیا میں آج تک کسی مغرور شخص کو عزت نصیب نہیں ہوئی‘ وہ آخر میں رسوائی اور ذلت تک پہنچ کر رہا‘ اللہ کو یہ دل بھی پسند نہیں۔ (قَلْبِ مُتَكَبِّرٍ ، سورۃ المؤمن ، آیت 35 آپ ان 13 دلوں کو سامنے رکھیں اور اپنے دل کو ٹٹول کر دیکھیں‘ آپ کے سینے میں اگر کوئی برا دل ہے تو آپ توبہ کریں اور اچھے دل کی طرف لوٹ جائیں‘ اللہ تعالیٰ آپ پر اپنے کرم اور فضل کے دروازے کھول دے گا‘

Sindhi, the official language from ancient to caliphate and even in the British era, has been banned since 1947

 Sindhi, the official language from ancient to caliphate and even in the British era, has been banned since 1947 


۰Abū Maʿshar al-Sindī (d. Ramaḍān 170/ 787 AD), was a traditionist, a narrator of historical events and one of the first narrators of the biography of the Prophet (sīra).


.Sind ibn Ali-Musa, Sind ibn ʿAlī (died after 864 AD), was a renowned Sindhi Muslim an eighth-century astronomer, translator, mathematician and engineer employed at the court of the Abbasid caliph Al-Ma’mun. A later convert to Islam, his father was a learned astronomer who lived and worked in Baghdad.

He is known to have translated and modified the Zij al-Sindhind. The Zij al-Sindhind was the first astronomical table ever introduced in the Muslim World. As a mathematician Sanad ibn ʿAlī was a colleague of al-Khwarizmi and worked closely with Yaqūb ibn Tāriq together they calculated the diameter of the Earth and other astronomical bodies. He also wrote a commentary on Kitāb al-ğabr wa-l-muqābala and helped prove the works of al-Khwarizmi. The decimal point notation to the Arabic

دل کی بات HEART DESEASE

 دل کی بات ! 

کبھی آپ نے سوچا ھے کہ آج کل دل کی بیماری کیوں زیادہ ھوتی جارہی ھے ۔

دل کے تمام حصوں کی بیماریاں چاھے وہ دل میں خون لانے والی نالیاں ھوں یا دل کے پٹھے ، دل کے والوز ھوں یا دل کا بجلی کا نظام ، دل کے باھر جھلی نما غلاف ھو یا جسم کے دوسرے اعضاء کی وجہ سے دل کا خراب ھونا ، سب ھی بہت زیادہ ھوتی جارھی ھیں ۔ 

ھمیں سوچنا ھوگا ! 

ھم خود اس کے ذمہ دار ہیں ۔ 

ھر خاندان میں دل کے مریض بہت زیادہ ھوتے جارھے ھیں ۔

دل کے پیدائشی امراض کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ھوتا جارھا ھے ۔

دل کے امراض وبائی نہیں ھیں لیکن انہوں نے وبائی شکل اختیار کرلی ھے ۔

آئیں !  ھم سب مل کر ان وجوھات کو کنٹرول کریں یا ان کا خاتمہ کردیں جو دل کے امراض پیدا کرنے کے ذمہ دار ھیں ۔

صرف ایک ھی حل ھے ، زندگی کے تمام معاملات میں سادگی اور میانہ روی اختیار کرلیں ، چاہے وہ آپ  کے رہنے کا انداز ھو یا کھانے پینے کا ، روزمرہ کے معمولات  ھوں یا لوگوں سے ملنے جلنے کے ، سب میں سادگی اور میانہ روی اختیار کرلیں ۔ آپ دیکھیں گے کہ دل کی بیماریوں کی شرح کس تیزی سے نیچے آتی ھے ۔

 ڈاکٹر سید جاوید سبزواری ۔

انسان کا ماضی، حال اور مستقبل , بنی نوع انسان کی مختصر تاریخ PAST, PRESENT AND FUTURE OF MANKIND

 🧕🏻 *بــــــنـــــدہ بــــــشـــــر* 👳🏻‍♂️

(انسان کا ماضی، حال اور مستقبل)


بنی نوع انسان کی مختصر تاریخ

 (عبرانی: קיצור תולדות האנושות‎، [قیتصور تولدوت ہا اِنوشوت]،

انگریزی: Sapiens: A Brief History of Humankind)

یووال نوح ہراری کی تحریر کردہ ایک شاھکار کتاب ہے جو سب سے پہلے 2011ء میں اسرائیل میں عبرانی زبان میں شائع ہوئی.

پھر 2014ء میں انگریزی زبان میں چھپی۔

کتاب میں نوعِ انسانی کی تاریخ، پتھروں کے دور کی قدیم انسانی انواع سے لے کر اکیسویں صدی عیسوی کے موجودہ انسانوں تک کے ارتقا پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

یہ کتاب فطری علوم بالخصوص ارتقائی حیاتیات پر مشتمل ہے۔

اس کتاب میں ہراری نے لگ بھگ 70،000 سال پہلے ہونے والے “علمی انقلاب” کے بارے میں لکھا ہے جب ہومو سیپینز نے حریف نیندرٹھالوں کی سرکوبی کی ،

زبان کی ہنر اور ڈھانچے والے معاشرے تیار کیے اور زرعی انقلاب کی مدد سے اور سائنسی طریقہ کار کے ذریعہ تیز ہوا ، جس نے انسانوں کو اجازت دی ان کے ماحول پر مہارت حاصل کرنے کے قریب

ان کی کتابیں مستقبل کے بائیوٹیکنالوجی دنیا کے ممکنہ نتائج کا بھی جائزہ لیتی ہیں جس میں ذہین حیاتیاتی حیاتیات کو اپنی تخلیقات سے آگے نکلتے ہیں۔ 

انہوں نے کہا ہے کہ “ہومو سیپینز جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ وہ ایک صدی میں غائب ہوجائیں گے”۔ 


اس کتاب کے حوالے سے ملی جلی آراء ہیں۔ کتاب سے متعلق محققین کا موضوع بحث بہت زیادہ تنقیدی ہے، اس کے باوجود عوام کا عمومی ردِ عمل مثبت ہے۔



*➖اردو تراجم➖*

اردو زبان میں اس کتاب کے کئی تراجم ہو چکے ہیں جو درج ذیل ہیں :


1⃣ *بندہ بشر:*

       (انسان کا ماضی، حال اور مستقبل)

 ✍ *مترجم :* سعید نقوی


2⃣ *آدمی بنی نوع انسان کی مختصر تاریخ*

✍ *مترجم:* عمر بنگش


3⃣  *بنی نوع انسان کی مختصر تاریخ*

 ✍ *مترجم :* عقیل عباس سومرو



✿اردو ڈیجیٹل لائبریری✿

بي موت مُئا، تو لاءِ ڪُٺا، انسان هزارين مان نه رُڳو shaikh ayaz

 بي موت مُئا، تو لاءِ ڪُٺا، انسان هزارين مان نه رُڳو.

هن دنيا ۾ اي ديسَ ! هُيا، نادان هزارين مان نه رُڳو.


جي راهِ اجل ڪَنهن ورتي آ، هن ڀُونءِ ڪئي ٻي ڀَرتي آ،

هيءَ ڌرتي توکي پَرتي آ، مھمان هزارين مان نه رُڳو.


اَک ساري رات نه جَھپڪي آ ۽ شبنم شبنم ٽپڪي آ،

جي باک گھري ٿي، بَکُ ته اِي زندان هزارين مان نه رُڳو.


ٿو ساري ڪو به نه سڃ مُئا، هُو رڃ مُئا جي اُڃ مئا،

ڇا پاپي پرکي پُڃَ مُئا، ارمان هزارين مان نه رُڳو.


ڇو چنڊَ اسان کي رات ٺَري، ڏي چانڊوڪيءَ جو زهرُ ڀري؟

آ ڪيڏو پويون پَھرُ پَري! حِيران هزارين مان نه رُڳو.


هي دَور ” اياز“ گذرڻو آ ، ۽ پنهنجو وارو ورڻو آ،

ڪو ٻَارڻ نِيٺ ته ٻرڻو آ ، امڪان هزارين مان نه رُڳو.ا!


 #شيخ #اياز

Tuesday, March 1, 2022

علامہ اقبال MCQS ALLAMA IQBAL

 1   علامہ اقبال کب پیدا  ہوئے      

جواب     *9نومبر 1877*   

2  علامہ اقبال کب فوت ہوئے تاریخ    

جواب    *21 اپریل 1938*

3   علامہ کے دو یورپی اساتزہ کے نام لکھیے     

جواب      *1اے بی براون  2سر ٹامس آرنلڈ*    

4  اقبال کی پہلی بیوی کا نام کیا تھا    

جوب    *کریم بی بی*      

5  جاوید نامہ کا سال اشاعت کیا ہے      

جواب   *1932*   

6   بانگ درا کب شائع ہوئی     

جواب   *1924*    

7  بانگ درا کی پہلی نظم کا عنوان کیا ہے    

جواب  *ہمالہ*      

8  علامہ اقبال کس ہندوستانی ریاست میں بغرض علاج گئے تھے 

اردو گرائمر urdu Grammar MCQS

 اردو گرائمر  MCQS

1) اسم معرفہ کی کتنی اقسام ہیں؟

الف۔پانچ

ب۔چار 💞

ج۔چھ


2) اسم علم کی کتنی اقسام ہیں؟

الف۔پانچ 💞

ب۔چار

ج۔سات


3) اسم علم کی اقسام ہیں۔

الف۔اسم اشارہ،اسم موصول،اسم ضمیر،اسم مصغر،اسم مکبر

ب۔اسم تخلص،اسم خطاب،اسم لقب،اسم کنیت،اسم عرف 💞

ج۔اسم نکرہ،اسم معرفہ،اسم جمع،اسم مصدر،اسم،جامد


4) وہ مختصر نام جو شاعر اپنے شعروں میں لاتے ہیں اس کو کیا کہتے ہے؟

الف۔لقب

ب ۔عرف

ج۔تخلص 💞


5) الفاظ____ قسم ہوتے ہیں۔

الف) دو 💞 (کلمہ، مہمل)

ب) تین

ج) چار

Tuesday, February 1, 2022

PPSC PAST PAPERS SS/SST/HST/JEST/PST / SUBJEST SPECIALIST IN EDUCATION

CLICK HERE PPSC PAST PAPERS SS/SST/HST/JEST/PST 

TEACHERS RECRUITMENT GUIDE FOR FPSC/SS/SST

CLICK HERE   TEACHERS RECRUITMENT GUIDE FOR FPSC/SS/SST

TEACHERS RECRUITMENT GUIDE FOR FPSC/SS/SST/JEST/PST

CLICK HERE  https://drive.google.com/file/d/18J88TO5KlCC_P4gKGeqVvHZJKPmYYhok/view?usp=sharing 

TUJSE NARAZ NAHI ZINDAGI BY LATA MANGESHKAR

CLICK HERE   https://drive.google.com/file/d/0B3idl1YVsgY6S3Vfamw2T21rTmc/view?usp=sharing&resourcekey=0-VtmTGP61y-QhuMLzFTK49Q

BPS.17 CONTRACTUAL EMPLOYEES OF WATER MANAGEMNT DEPARTMENT REGULARIZED THROUGH SINDH ASSEMBLY BILL

CLICK HERE   https://drive.google.com/file/d/19Foh49U1jANlPYmleZ1kjy95tYyuv3Px/view?usp=sharing

SINDHI FOR CLASS INTERMEDIATE

CLICK HERE   https://drive.google.com/file/d/1v-luM8XsHEDiSUWT4l7EVsYztoxXbBt-/view?usp=sharing

Wednesday, January 26, 2022

Important MCQS for Any Job

 Very important Mcqs.


Qn1: wolrd 2nd  largest muslim country by population is ?

Ans: Pakistan

Qn2: Zabur was revealed on?

Ans: Hazrat Daood (A.S)

Qn3: Shah jo risalo is famous book of?

Ans: Shah Abdul latif

Qn4: highest range of kirthar is?

Ans: Zardak

Qn5: capital of uzbekistan? 

Ans: Taskent

Qn6: What is Fiqh?

Ans: The science of islamic law

Qn7:The accerleration caused by Gravity?

Ans: 32ft

Qn8: Imam Bukhari was born in?

Ans: 194 A.H

Qn9: The world largest producer of uranium?

Ans: Canada

Qn10: Headquarter of international Court of Judge (ICJ)?

Ans: The Hague(Netherland)

Qn11: LCD stand for?

Ans: liquid crystal display

Qn12: Federal  Minister of education?

Ans: Shafqat mahmood

Qn13: Old name of Netherland?

Ans: Holland

Qn14: Heart of pakistan?

Ans: punjab

Qn15: when WAPDA eastablised?

Ans: 12feb 1958

Qn16: Blood is cleaned by?

Ans: liver

Qn17: Who is champion of football?

Ans: Germany

Qn18: Who refused to take noble prize?

Ans: Jean paul sartre

Qn19: Age of holy prohet at fujjar?

Ans: 15year

Qn20: months in year of 31 days of?

Ans: 7

Qn21: Atique is tittle of?

Ans: Hazrat Abu Bakar(R.A)

Qn22: Circumference of earth?

Ans: 40075km

Qn23: The number of bones in human body?

Ans: 206

Qn24: Ch: Rahmat Ali wss born in?

Ans: 1897

Qn25: Death of Queen victoria?

Ans: 1901

Qn26:The highest award of USA millatry?

Ans: Medal of honour

Qn27: capital of South Africa?

Ans: Pretoria

Qn28: city of conference?

Ans: Geneva

Qn29: Current chairman of HEC?

Ans: Dr javed laghari

Qn30: Siam is old name of?

Ans: Thailand

Qn31: ECO stand for?

Ans: Economic  cooperation organization

Qn32: Real name of bukhari?

Ans: Abu Abdullah muhamed bin ismail

Qn33: old name of attock?

Ans: Cambellpur

Qn34: when fatima jinnah joined Muslim League?

Ans: 1939

Qn35: sofia is capital of?

Ans: Bulgaria

Qn36: Who founded Bagdad?

Ans: Al mansur

Qn37: Meaning of Rab?

Ans: Sustainer

Qn38: India Quit movement?

Ans: 1942

Qn39: 50%30?

Ans: 15

Qn40: Buddism founded in?

Ans: 525 B.C

Sunday, January 9, 2022

BLOOD AND DONATE BLOOD ITS A CHARITY OF BODY

 *خون دینے اور نہ دینے کے متعلق چند*

*سوالات۔۔۔*


سوال: خون دینے کا سب سے بڑا نقصان کیا ہے؟

جوآب: خون دینے کا نقصان کوئی نہیں البتہ

بلکہ بڑا فائدہ ہے کہ ریگولر  خون دینے والے

فرد کو دل کے دورے اور کینسر کے چانسس

باقی افراد کے مقابلے میں 95% کم ہوتے ہیں۔۔یہ

ریسرچ امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن کی ہے


سوال: کسی کو خون کا عطیہ دینے کے بعد کتنے دنوں  میں خون بن جاتا ہے؟


جواب: خون عطیہ کرنے کے تین دن میں کمی پوری ہو جاتی ہے جبکہ 56 دنوں میں

خون کے مکمل خلیات بن کر تازہ خون رگوں  میں دوڑنے لگتا ہے۔۔۔۔


سوال:پرانا خون ذیادہ طاقتور ہوتا ہے یا  نیا بننے والا؟

جواب: نیا بننے والا خون پرانے کے بنسبت

ذیادہ فریش اور طاقتور ہوتا ہے۔۔


سوال:  خون دینے کے فوائد کیا ہیں؟

جواب:  خون دینے کا سب سے بڑا فائدہ

ایک صدقہ  جاریہ میں حصہ ڈالنا ہے جو

قیامت تک نسل درنسل آپ کیلئے ثواب کا موجب ہے۔۔

اس کا دوسرا بڑا فائدہ خون میں آئرن کو مقدار بیلنس رکھنا اور سب سے سے بڑا  فائدہ صحت مند اور فریش زندگی گزارنا ہے۔۔۔

ریگولر  خون دینے والے کی جلد دوسروں کی بنسبت ذیادہ عرصے تک جوان اور صحتمند  رہتی ہے۔۔۔

اس کا ایک فائدہ مفت میں خون کی اسکرینگ بھی ہے۔۔۔

سوال: خون سال میں کتنی بار دیا جا سکتا

ہے؟

جواب: ایک صحت مند انسان جس کی عمر

17 سے 50 کے درمیان ہو  اور وزن 50 کلو سے 

ذیادہ ہوسال میں کم ازکم 

دو بار آسانی سے خون دے سکتا ہے جبکہ ایک بار خون دینے کے تین ماہ بعد عطیہ دے سکتا ہے۔۔۔

 

سوال : پاکستان میں کتنے فیصد

لوگ خون دیتے ہیں؟


جواب: پاکستان میں صرف ایک سے  دو فیصد لوگ ریگولر خون دیتے ہیں۔۔

چند افراد ایمرجنسی میں بھی خون دیتے ہیں۔


سوال: خون کی زندگی کتنی ہے؟

جواب: خون کی زندگی 120 دن ہے۔۔

یعنی ایک سو بیس دن میں ہماری خون کے خلیہ مردہ ہو کر پیشاب کے رستے نکل جاتے

ہیں اور نئے وجود میں آ جاتے ہیں۔


سوال: پھر ہم خون دینے سے گھبراتے کیوں  ہیں؟

جواب: ہم ایک ایسی سوسائٹی میں سانس لے رہے ہیں جہاں یہ بات پھیلی ہوئی ہے کہ

خون دینے سے انسان کمزور ہو جاتا ہے اور خون دوبارہ نہیں بنتا۔۔۔

لہذا ہمارے مریض

تڑپتے سسکتے بستروں پر خون کی کمی کی وجہ سے جان دے دیتے ہیں۔۔۔




نوٹ: یہ تحریر صدقہ جاریہ کی نیت سے لکھی گئی ہے آگے شئیر کریں اور اس کار

خیر میں شامل ہو جائیں


والسلام۔۔۔


*خون کا عطیہ دیں*

*زندگیاں بچائیں*

Friday, January 7, 2022

Computerized National Identity Card of Pakistan CNIC INFORMATION

 پاکستانی شناختی کارڈ کے متعلق حیران کن معلومات <3

قومی شناختی کارڈ ہر پاکستانی کی پہچان ہےمگر بہت ہی کم لوگ شناختی کارڈ نمبر کی ٹیکنالوجی اور اسکے شناخت کے خودکار نظام سے واقف ہوں گے.

اگرچه آپ سب لوگ تقریبا روز اپنا شناختی کارڈ دیکھتے هونگے لیکن آج تک

آپ کو اس پر لکھے 133ہندسو ں کے کوڈ کا مطلب کسی نے نہیں بتایا ہو گا۔

درج ذیل تحریر آپکو شناختی کارڈ نمبر کے متعلق معلومات فراهم کرے گی.

*شناختی کارڈ نمبر کے*

*شروع کے پہلے پانچ نمبر*

هم مثال کے طور پرایک شناختی کارڈ نمبر لکھتے هیں

15302-*******-*

اس میں سب سے پہلے آنے والا پہلا نمبر

یعنی 1

جو کہ صوبے کی نشاندہی کرتاہے.

یعنی جن لوگوں کے

شناختی کارڈز کے نمبر 

1 سے شروع ہوتے ہیں،

وہ لوگ

صوبه خیبر پختون خواہ کے رہائشی ہیں.

اسی طرح

اگر آپ کے شناختی کارڈ کا نمبر 

2 سے شروع ہو رہا ہے،

تو آپ فاٹا کے رہائشی ہیں۔

اسی طرح

پنجاب کیلئے 3،

سندھ کیلئے 4،

بلوچستان کیلئے 5،

اسلام آباد کیلئے 6،

گلگت بلتستان کیلئے 7.

اس پانچ ہندسوں کے کوڈ میں

دوسرے نمبر پر آنے والا ہندسہ

آپ کے ڈویژن کو ظاہر کرتاہے.

مثال کے طور پر

اوپر دئیے گئے کوڈ میں

دوسرے نمبر پر 

5کا ہندسہ ہے،

جو کہ

ملاکنڈ

کو ظاہر کرتاہے.

جبکہ باقی تین ہندسے

آپ کے متعلقه ضلع،

اس ضلع کی متعلقه تحصیل،

اور یونین کونسل نمبر

کو ظاہر کرتے ہیں۔

*درمیان میں لکھا ہوا*

*7 نمبر پر مشتمل کوڈ*

*****-1234567-*

یه درمیانه کوڈ

آپ کے خاندان نمبر کو ظاہر کرتاہے.

هر خاندان کے تمام افراد

جو ایک دوسرے سے خونی رشتوں کے تحت جڑے هوتے هیں،

ان سب افراد کا باهمی تعلق کا تعین

اسی درمیانے کوڈ سے هوتا هے.

اسی کوڈ کے ذریعے

کمپیوٹرائزڈ شجره

یعنی Family Tree تشکیل پاتا هے.

*آخر میں - کے بعد آنے والا نمبر*

*****-*******-1

یه آخری هندسه

آپ کی جنس کو ظاہر کرتا ہے

مردوں کیلئے

یہ نمبر ہمیشہ طاق میں ہو گا.

مثال کے طور پر

1,3,5,7,9

اور

خواتین کیلئے

یہ نمبر جفت میں ہوگا،

مثال کے طور پر

2,4,6,8

اس طرح

نادرا کے خودکار نظام کے تحت

هم سب کا

 قومی شناختی کارڈ نمبر وجود میں آتا هے..!

#sjabeen

Wednesday, January 5, 2022

Thomas Alva Edison

 ٿامس الوا ايڊيسن Thomas Alva Edision 

جنم 11 فيبروري 1847 . آڪٽوبر 18  1931 

ٿامس سندس جو نالو الوا سندس ڳوٺ جو نالو ۽

 ايڊيسن سندس جي ڏاڏي جو نالو . 

آمريڪا جو دنيا جو ذهين ترين انسان جنهن بلب ٽائيپ رائيٽر اليڪٽرڪ ووٽر ريڪارڊ مشين فونوگراف موشن پڪچر ڪئميرا ريچارج واري بيٽري اليڪٽرڪ ڪرنٽ سيٽ ڪري دنيا کي جدتن طرف گامزن ڪيو.

 جڏهن هن دنيا مان موڪلاڻي ڪئي ته هن جي ليب ۾ 3500 نوٽبڪ هيا جن تي هزارين نئين شين جا آئيڊياز موجود هيا .آمريڪا جو ڪامياب ترين ايجادات ڪندڙ ۽ بزنس مين جنهن

 جنرل اليڪٽرڪ جهڙي ورلڊ ڪلاس ڪمپني جا بنياد وڌا ۽ ان کان علاوه چوڏهن ڪمپنين جو باني پڻ هيو . 

اڄ سندس جي مڃتا ۾ سوين نه پر هزارين اسڪول تي سندس جا نالا آهن ته شهرن وستين تي به نالا پڻ . سندس جا مجسما انهن جاين تي نصب ڪيا ويا جت ٿامس وقت گذاريو . هزارين ايوارڊ ماڻيندڙ ان ڪامياب انسان کي خلا ۾ هڪ ايسٽرائيڊ تي به سندس جو نالو ڏنو ويو آهي . 

ٿامس الوا ايڊيسن پهريون ماڻهو هيو جنهن سائنس جا بنيادي اصول سهيڙي ٽيم ورڪ سان مٿيون ايجادون ڪيون.

 1876 ع ۾ ٽيلگراف آپريٽر جي نوڪري هن جي قسمت بدلائي ۽ اتي ئي رات جي ڊيوٽي جي گهر ڪرڻ ڪري هن کي وقت مليو ۽ هن ٽائيپ رائيٽر جوڙي اخبار کپائڻ جو لائسنس به ورتو ۽ اتي ئي روڊ تي ڏينهن جو اخبار ٽائيپ ڪري شايع ڪندو هيو ۽ ان بعدهن پنهنجي ذهانت تي يقين ڪندي 14 ڪمپنين جو بنياد رکيو  . 

ان کان اڳ هن وڏي ڊگري صرف ڪيميسٽري ۾ وٺڻ چاهي پر نه وٺي سگهيو . 

شروع ۾ هي انسان ريل ۾ کٽمٺڙا اخبارون ۽ ڀاڄيون کپائيندو هيو جنهن مان هن کي 50 ڊالر هفتيوار آمدني ٿيندي هئي جن مان هو بجلي جا ۽ ڪيميائي تجربن جا آوزار خريد ڪندو هيو . پوِء وڃي هن کي ٽيلگراف آپريٽر جي جاب ملي . 

جنگ عظيم پهرين ۾ صنعتن جي دنيا ۾ زوال آيو ۽ آمريڪا جي رٻڙ جي کوٽ ٿي جيڪا هن هٿرادو طريقي سان ٺاهي پوري ڪئي . 

هن عظيم انسان شروعاتي تعليم پنهنجي امڙ کان ئي حاصل ڪئي جيڪا پڻ ٽيچر هئي . جنهن کان پڙهڻ لکڻ ۽ حساب سکيا . 12 سال جي عمر ۾ بخار سبب بيمار ٿيو ۽ هڪ ڪن کان هميشه لاِء ٻوڙو ٿي پيو . 

هن پنهنجو جيڪو  به ڪم ڪيو سو ٽيم ورڪ ۾ ڪيو ۽ ان سان دنيا جا قابل ترين 47 ماڻهو پڻ ساٿ ۾ رهيا پر وڏو عمل ۽ سهڪار هن شخص جو هيو . هن جي ليب ۾ اٺ هزار نٽ بلٽ ڌات ڪيميڪل ۽ ٻيا تجرباتي اوزار هيا ۽ ان ليب کي ميوزيم جو درجو ڏنو ويو . 

آمريڪا لاِء ۽ هن دنيا لاِء ڪم ڪيو ۽ موٽ ۾  ساري دنيا کان اوترو مان مرتبو مليس . اڄ سندس ناماچار آهي ۽ اربين انسانن جي دنيا جي هن گولي تي سندس نانؤ عزت ۽ مان سان ورتو وڃي ٿو . 


رهي ڳالهه سنڌ جي ته هت به ذهين ماڻهو آهن پر سي سڀ سرڪاري جي جاب جي ڪڍ آهن ۽ ادارن جي جوڙجڪ نه ٿيڻ جي ڪري ادارا صحيح ڪريم نه ڏئي سگهيا آهن جن سان سنڌ جو سماج ترقي ڪري . 

آغا وقار خود مثال هيو جنهن تي هت ٽوڪ ٺٺول ٿي ۽ اوليئر بردارس جهاز لاِء قرباني ڏني تن تي پڻ ٽوڪ ٿي هئي پر اهي ڪامياب ٿيا ۽ سندس جي ايجاد ۾ انهن جو نالو ئي  آهي . 

آغا وقار به هڪ آئيڊيا ڏنو . اهڙي طرح ان جي پوائنٽس کي تحقيق ۽ ترويج سان وڌائي سگهجي پيو . 

هن ذهين انسان ٿامس الوا ايڊيسن جو حوالو ڏئي آئون اهو عرض سنڌ جي پئسي واري ۽ انٽيليڪچوئل ڪلاس ۽ وس وارن کي اپيل ڪندس ته خدارا سنڌ جي ساڃاه جي مالڪي ڪئي وڃي ۽ نوجوان ڪتابن جي ٿيورين سان گڏ ان جي امپليمينٽيشن به لازمي ڪن . 

سنڌ کي سردار مير پير ڀوتار نه ٿا گهرجن سنڌ کي شعور کپي ڪارخانا کپن هيوي صنعتون ۽ ذهين ماڻهون کپن جيڪي سنڌ جي غريب پرور طبقي لاِء ڪم ڪن ته جيئن اٿاهه غربت ختم ٿئي . 

ٿامس ايڊيسن اڄ آمريڪا جو آئيڊيل آ . سنڌ کي به سوين ٿامس ايڊيسن گهرجن ٿا ...

آهي ڪو سنڌي مائي جو لعل جيڪو سنڌ جي سماج جو ٿامس ايڊيسن ٿئي ۽ ادارا جوڙي ڏي . ...... 

Saturday, January 1, 2022

1896 German physicist Wilhelm Röntgen announces his discovery of x-rays

 1896  German physicist Wilhelm Röntgen announces his discovery of x-rays

W.C. Röntgen reported the discovery of X-rays in December 1895 after seven weeks of assiduous work during which he had studied the properties of this new type of radiation able to go through screens of notable thickness. He named them X-rays to underline the fact that their nature was unknown

November 8, 1895: Roentgen's Discovery of X-Rays

Wilhelm Conrad Roentgen
Wilhelm Conrad Roentgen
 
one of the earliest photographic plates
One of the earliest photographic plates from Roentgen's experiments was a film of his wife, Bertha's hand with a ring, produced on Friday, November 8, 1895.

Few scientific breakthroughs have had as immediate an impact as Wilhelm Conrad Roentgen's discovery of X-rays, a momentous event that instantly revolutionized the fields of physics and medicine. The X-ray emerged from the laboratory and into widespread use in a startlingly brief leap: within a year of Roentgen's announcement of his discovery, the application of X-rays to diagnosis and therapy was an established part of the medical profession.

The Emancipation Proclamation

 

The Emancipation Proclamation

President Abraham Lincoln issued the Emancipation Proclamation on January 1, 1863, as the nation approached its third year of bloody civil war. The proclamation declared "that all persons held as slaves" within the rebellious states "are, and henceforward shall be free."

Despite this expansive wording, the Emancipation Proclamation was limited in many ways. It applied only to states that had seceded from the United States, leaving slavery untouched in the loyal border states. It also expressly exempted parts of the Confederacy (the Southern secessionist states) that had already come under Northern control. Most important, the freedom it promised depended upon Union (United States) military victory.

Although the Emancipation Proclamation did not end slavery in the nation, it captured the hearts and imagination of millions of Americans and fundamentally transformed the character of the war. After January 1, 1863, every advance of federal troops expanded the domain of freedom. Moreover, the Proclamation announced the acceptance of black men into the Union Army and Navy, enabling the liberated to become liberators. By the end of the war, almost 200,000 black soldiers and sailors had fought for the Union and freedom.

Binomial nomenclature

 

Binomial nomenclature

Orcinus orca, the killer whale or orca
Echinopsis pachanoi, or San Pedro cactus

In taxonomybinomial nomenclature ("two-term naming system"), also called binominal nomenclature ("two-name naming system") or binary nomenclature, is a formal system of naming species of living things by giving each a name composed of two parts, both of which use Latin grammatical forms, although they can be based on words from other languages. Such a name is called a binomial name (which may be shortened to just "binomial"), a binomenbinominal name or a scientific name; more informally it is also called a Latin name.

The first part of the name – the generic name – identifies the genus to which the species belongs, whereas the second part – the specific name or specific epithet – distinguishes the species within the genus. For example, modern humans belong to the genus Homo and within this genus to the species Homo sapiensTyrannosaurus rex is probably the most widely known binomial.[1] The formal introduction of this system of naming species is credited to Carl Linnaeus, effectively beginning with his work Species Plantarum in 1753.[2] But as early as 1622, Gaspard Bauhin introduced in his book Pinax theatri botanici (English, Illustrated exposition of plants) many names of genera that were later adopted by Linnaeus.[3]

The application of binomial nomenclature is now governed by various internationally agreed codes of rules, of which the two most important are the International Code of Zoological Nomenclature (ICZN) for animals and the International Code of Nomenclature for algae, fungi, and plants (ICNafp). Although the general principles underlying binomial nomenclature are common to these two codes, there are some differences, both in terminology they use and in their particular rules.

In modern usage, the first letter of the generic name is always capitalized in writing, while that of the specific epithet is not, even when derived from a proper noun such as the name of a person or place. Similarly, both parts are italicized in normal text (or underlined in handwriting). Thus the binomial name of the annual phlox (named after botanist Thomas Drummond) is now written as Phlox drummondii. Often, after a species name is introduced in a text, the generic name is abbreviated to the first letter in subsequent mentions (e. g., P. drummondii).

The International Commission on Zoological Nomenclature

 The International Commission on Zoological Nomenclature therefore chose 1 January 1758 as the "starting point" for zoological nomenclature, and asserted that the 10th edition of Systema Naturae was to be treated as if published on that date.

The conquest of Mecca

The conquest of Mecca (Arabicفتح مكة fatḥ makkah) was the capture of the town of Mecca by Muslims led by the Islamic prophet Muhammad in December 629 or January 630 AD[3][4] (Julian), 10–20 Ramadan, 8 AH.[3] The conquest marked the end of the wars between the followers of Muhammad and the Quraysh tribe.

Ancient sources vary as to the dates of these events.

  • The date Muhammad set out for Mecca is variously given as 2, 6 or 10 Ramadan 8 AH.[3]
  • The date Muhammad entered Mecca is variously given as 10, 17/18, 19 or 20 Ramadan 8 AH.[3]

The conversion of these dates to the Julian calendar depends on what assumptions are made about the calendar in use in Mecca at the time. For example, 18 Ramadan 8 AH may be converted to 11 December 629 AD, 10 or 11 January 630, or 6 June 630 AD

In 628, the Meccan tribe of Quraysh and the Muslim community in Medina signed

Thursday, December 30, 2021

Hazrat Muhammad Rasool Allah Salelahu Alaih e wa e lehi wasalam ﺳﯿﺮﺕ ﺍﻟﻨﺒﯽ ﷺ 63 ﺳﺎﻝ ﮐﯽ ﻧﺴﺒﺖ ﺳﮯ 63 ﺍﮨﻢ ﺳﻮﺍﻻﺕ

 ﺳﯿﺮﺕ ﺍﻟﻨﺒﯽ ﷺ 63 ﺳﺎﻝ ﮐﯽ ﻧﺴﺒﺖ ﺳﮯ 63 ﺍﮨﻢ ﺳﻮﺍﻻﺕ


‏( 1 ‏) ﮨﻤﺎﺭﮮ ﭘﯿﺎﺭﮮ ﻧﺒﯽ ﷺ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﮐﯿﺎﮨﮯ؟

ﺟﻮﺍﺏ : ﺣﻀﺮﺕ ﻣﺤﻤﺪﷺ


‏( 2 ‏) ﮨﻤﺎﺭﮮ ﭘﯿﺎﺭﮮ ﻧﺒﯽﷺ ﮐﮯ ﻭﺍﻟﺪ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ؟

ﺟﻮﺍﺏ : ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ


‏( 3 ‏) ﮨﻤﺎﺭﮮ ﭘﯿﺎﺭﮮ ﻧﺒﯽﷺ ﮐﮯ ﺩﺍﺩﺍ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ؟

ﺟﻮﺍﺏ : ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺒﺪﺍﻟﻤﻄﻠﺐ


‏( 4 ‏) ﮨﻤﺎﺭﮮ ﭘﯿﺎﺭﮮ ﻧﺒﯽﷺ ﮐﯽ ﺩﺍﺩﯼ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ؟

ﺟﻮﺍﺏ : ﺣﻀﺮﺕ ﻓﺎﻃﻤﮧ ﺑﻨﺖ ﻋﻤﺮ ﻣﺨﺰﻭﻣﯿﮧ


‏( 5 ‏) ﮨﻤﺎﺭﮮ ﭘﯿﺎﺭﮮ ﻧﺒﯽﷺ ﮐﮯ ﺟﺪﺍﻣﺠﺪ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ؟

ﺟﻮﺍﺏ : ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺳﻤﺎﻋﯿﻞ ﺑﻦ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﺮﺍﮨﯿﻢ ﻋﻠﯿﮩﻤﺎ ﺍﻟﺴﻼﻡ


‏( 6 ‏) ﮨﻤﺎﺭﮮ ﭘﯿﺎﺭﮮ ﻧﺒﯽﷺ ﮐﯽ ﻭﺍﻟﺪﮦ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ؟

ﺟﻮﺍﺏ : ﺣﻀﺮﺕ ﺁﻣﻨﮧ


‏( 7 ‏) ﮨﻤﺎﺭﮮ ﭘﯿﺎﺭﮮ ﻧﺒﯽﷺ ﮐﮯ ﻧﺎﻧﺎﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ؟

ﺟﻮﺍﺏ : ﺣﻀﺮﺕ ﻭﮨﺐ


‏( 8 ‏) ﮨﻤﺎﺭﮮ ﭘﯿﺎﺭﮮ ﻧﺒﯽﷺ ﮐﯽ ﻧﺎﻧﯽ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ؟

ﺟﻮﺍﺏ : ﺣﻀﺮﺕ ﺑﺮﮦ ﺑﻨﺖ ﻋﺒﺪﺍﻟﻌﺰﯼ


‏( 9 ‏) ﮨﻤﺎﺭﮮ ﭘﯿﺎﺭﮮ ﻧﺒﯽﷺ ﮐﮯ ﺧﺎﻧﺪﺍﻥ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ؟

ﺟﻮﺍﺏ : ﻗﺮﯾﺶ ﮐﯽ ﺷﺎﺥ ﺑﻨﻮﮨﺎﺷﻢ


‏( 10 ‏) ﮨﻤﺎﺭﮮ ﭘﯿﺎﺭﮮ ﻧﺒﯽ ﷺ ﮐﯽ ﻭﻻﺩﺕ ﮐﺐ ﮨﻮﺋﯽ؟

ﺟﻮﺍﺏ : ﭘﯿﺮ 12 ﺭﺑﯿﻊ ﺍﻻﻭﻝ ﮐﮯ ﺩﻥ۔


‏( 11 ‏) ﮨﻤﺎﺭﮮ ﭘﯿﺎﺭﮮ ﻧﺒﯽ ﷺ ﮐﯽ ﺭﺿﺎﻋﯽ ﻭﺍﻟﺪﮦ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ؟

ﺟﻮﺍﺏ : ﺣﻀﺮﺕ ﺣﻠﯿﻤﮧ ﺳﻌﺪﯾﮧ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮩﺎ۔


‏( 12 ‏) ﮨﻤﺎﺭﮮ ﭘﯿﺎﺭﮮ ﻧﺒﯽﷺ ﮐﮯ ﻭﺍﻟﺪ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻘﺎﻝ ﮐﺐ ﮨﻮﺍ؟

Saturday, December 25, 2021

Me unhi mast naghmy lutata rhoo tum mujy dekh kar muskrati rho

 شاعر۔ساحرلدھیانوی 

خوبصورت آواز .مہندرکپور

For you 😊👇

تم اگر ساتھ دینے کا وعدہ کرو

میں یونہی مست نغمے لٹاتا رھُوں


تم مجھے دیکھ کر مسکراتی رھو

میں تمہیں دیکھ کر گیت گاتا رھُوں


کتنے جلوے فضاؤں میں بکھرے مگر

میں نے اب تک کسی کو پکارا نہیں

تم کو دیکھا تو نظریں یہ کہنے لگیں

ھم کو چہرے سے ھٹنا گوارا نہیں

تم اگر میری نظروں کے آگے رھو

میں ھر اک شئے سے نظریں چراتا رھُوں


میں نے خوابوں میں برسوں تراشہ جسے

تم وھی سنگِ مَرمَر کی تصویر ھو

تم نہ سمجھو تمہارا مقدر ھُوں میں

میں سمجھتا ھُوں تم میری تقدیر ھو

تم اگر مجھ کو اپنا سمجھنے لگو

میں بہاروں کی محفل سجاتا رھُوں


تم اگر ساتھ دینے کا وعدہ کرو

میں یونہی مست نغمے لٹاتا رھُوں


تم مجھے دیکھ کر مسکراتی رھو

میں تمہیں دیکھ کر گیت گاتا رھُوں

Friday, August 6, 2021

SINDHI CLASS NINETH 9 WITH QA

CLICK BELOW LINK

SINDHI CLASS NINETH 9 WITH QA 

SCIENCE CLASS FOUR 4 QA

CLICK TO DOWNLOAD

SCIENCE CLASS FOUR 4 QA 

SCIENCE CLASS FIVE 5 QA

CLICK BELOW

SCIENCE CLASS FIVE 5 QA 

ISLAMIAT CLASS FOUR 4 IN SINDHI QUESTION ANSWERS

CLICK TO DOWNLOAD

ISLAMIAT CLASS FOUR 4 IN SINDHI QUESTION ANSWERS 

SINDHI SOCIAL STUDY CLASS FOUR 4 QUESTION ANSWERS

CLICK TO DOWNLOAD 

SINDHI SOCIAL STUDY CLASS FOUR 4 QUESTION ANSWERS 

SINDHI CLASS FIVE 5 QUESTION ANSWERS

CLICK BELOW TO DOWNLOAD 

SINDHI CLASS FIVE 5 QUESTION ANSWERS

SINDHI CLASS FOUR QUESTION ANSWERS


CLICK TO DOWNLOAD

SINDHI CLASS FOUR QUESTION ANSWERS 

SINDHI GRAMMAR COMPLETE

 CLICK BELOW TO DOWNLOAD

SINDHI GRAMMAR COMPLETE

SINDHI FOR CLASS 11 ELEVENTH QUESTION AND ANSWERS

CLICK BELOW TO DOWNLOAD

SINDHI FOR CLASS 11 ELEVENTH QUESTION AND ANSWERS 

CLASS FOUR MATH IN SINDHI

CLICK BELOW TO DOWNLOAD

CLASS FOUR MATH IN SINDHI 

THE LIFE OF HAZRAT MUHAMMAD SALELAHO ALAIHE WAA LEHEE WA SALAMM

CLICK TO DOWNLOAD

THE LIFE OF HAZRAT MUHAMMAD SALELAHO ALAIHE WAA LEHEE WA SALAMM 

Sunday, August 1, 2021

527 Justinian I becomes the sole ruler of the Byzantine Empire

 527  Justinian I becomes the sole ruler of the Byzantine Empire

In the early 500s, Justin—a high-ranking military commander in Constantinople (now Istanbul)—took Justinian under his wing. He ensured that Justinian received a Classical education and military training. ... On Justin's death on August 1, 527, Justinian became the sole emperor of the Byzantine Empire.
Early career: Justinian was a Latin-speaking Ill...
Role In: Second Council of Constantinople
Died: November 14, 565 Istanbul Turkey
Notable Family Members: spouse Theodora

USS Nautilus (SSN-571)

 3 August 1958

USS Nautilus (SSN-571) was the world's first operational nuclear-powered submarine and the first submarine to complete a submerged transit of the North Pole on 3 August 1958.

The discovery of oxygen and the chemical revolution of Joseph Priestley

 The discovery of oxygen and the chemical revolution of Joseph Priestley. Priestley's lasting reputation in science is founded upon the discovery he made on August 1, 1774, when he obtained a colourless gas by heating red mercuric oxide.

Oxidation states: −1, −2, +2 (in compounds with ...
Melting point: −218.4 °C (−361.1 °F)

Friday, July 30, 2021

Nisar and its definitions in Sindhi Adab

 سبجيڪٽ سنڌي

ادب جون صنفون..

۱. نثر

اسين جيڪا ڳالھ ٻولھ يا لکپڙھ ڪيون ٿا ان کي نثر چئبو آهي،


نثر جون صنفون


۱. سوانح عمري

اھڙو دستاويز جنھن ۾ ڪنھن بہ مشھور شخصيت جي زندگيءَ جي باري ۾ سندس زندگيءَ جي ھر پهلوءَ تي جامع طور ٻيو ڪير لکي تہ ان کي سوانح عمري چئبو آهي..


۲. آتم ڪھاڻي

نثر جي اھا صنف جنھن ۾ ليکڪ پنھنجي زندگيءَ جو احوال پاڻ لکي تہ ان کي آتم ڪھاڻي چيو ويندو آهي.


۳. خاڪو 

خاڪو ان دستاويز کي چئبو آهي جنھن ۾ ڪنھن بہ مشھور شخصيت جي باري ۾ ٻيو ڪو مختصر احوال لکي ڄاڻ ڏئي.


۴. سفرنامو

ادب جي اھا صنف جنھن ۾ ليکڪ پنھنجي زندگيءَ ۾ ڪيل ڪنهن بہ سفر جو احوال قلمبند ڪري ان کي سفر نامو چئبو آهي.


۵. مضمون

مضمون ۾ ليکڪ ڪنھن ھڪ نقطي تي سھڻي نموني سان لکندو آهي جنھن ۾ سنجيدگيءَ سان گڏ مزاح پڻ ٿي سگھي ٿو. مضمون ۾ ڪنھن بہ موضوع تي پابندي نہ ھوندي آھي پر انداز بيان دلڪش ۽ زبان ۾ رواني ھجڻ لازمي آهي.


۶. آکاڻي 

آکاڻيءَ جو بنياد بہ ھندو ليکڪن مان پيو ھر اھا ٻاراڻي لکڻي جنھن مان سبق يا نصيحت حاصل ٿئي ان کي آکاڻي چئبو آهي. ٻاراڻي درسي ڪتابن ۾ آکاڻيون عام طور تي ملنديون آهن.


۷. ڪھاڻي/ افسانو

افسانو ارڙهين صديءَ جي پيداوار آهي افسانو مختصر آهي، افسانو سماج جي مسئلن جو عڪس ھجڻ سان گڏوگڏ قوم جي جذبن جي ترجماني بہ ڪندو آهي سنڌي ادب ۾ افسانو انگريزن جي دؤر ۾ شروع ٿيو.


۸. ناول

ناول انگريزي ٻوليءَ جو لفظ آهي جنھن جي معني آهي ڪا نئين شيءِ، ناول ۾ ھڪ کان وڌيڪ رخن تي لکيل ھوندو آھي جنھن ۾ سماج جي مختلف مسئلن جي خيالن جي جذبن جي احساسن جي عڪاسي ٿيل ھوندي آھي سنڌي ادب ۾ ناول ترجمي سان آيو جيڪو ۱۸۷۰ع ۾ ديوان اڌارام ۽ ساڌو نولراءِ گڏجي انگريزي ناول راسيلاس جو سنڌيءَ ۾ ترجمو ڪيو ھو سنڌي ٻوليءَ ۾ پھريون اصلوڪو ناول مرزا قليچ بيگ جو ناول دلارام ۱۸۸۸ع ۾ شايع ٿيو جيڪو سندس وڏي خدمت طور ياد ڪيو وڃي ٿو.


۹. مقالو 

ادب جي اھا صنف جيڪا ڪنھن تحقيق يا تنقيد تي مشتمل ھجي تہ ان کي مقالو چئبو آهي پوءِ اھا تحقيق يا تنقيد ( براءِ اصلاح ) ڪنھن شخص تي ھجي ان جي علمي پورهئي تي ھجي ڪنھن ڪتاب تي ھجي يا انساني زندگيءَ سان تعلق رکندڙ ڪنھن بہ موضوع يا شيءِ تي ھجي ان کي مقالو چئبو آهي.


۱۰. مقالمو

ھڪ کان وڏيڪ ماڻھن جي پاڻ ۾ گفتگو کي مقالمو چئبو آهي..

Rejection of plaint

 O. VII, R. 11----Rejection of plaint---Principles----Plaint cannot be rejected in piecemeal---Plaint can only be rejected if all reliefs claimed by plaintiffs are barred under law---Even if one of the prayers is maintainable, plaint cannot be rejected under O.VII, R.11 of C.P.C.


PLD 2016 Sindh 26

Before Irfan Saadat Khan and Zafar Ahmed Rajput, JJ

WHY YOU ANGRY