Wednesday, March 30, 2022

set theory, it was a mathematical concept that used to tell what a set is, George Cantor's "Set Theory" and "The Number Game" جارج کینٹر کی ”سیٹ تھیوری“ اور ”نمبرز گیم“ اسکول کے زمانے میں ہمیں

 'set theory', it was a mathematical concept that used to tell what a set is,

 George Cantor's "Set Theory" and "The Number Game" 

جارج کینٹر کی ”سیٹ تھیوری“ اور ”نمبرز گیم“

اسکول کے زمانے میں ہمیں  ’سیٹ تھیوری‘ پڑھائی جاتی تھی، یہ ریاضی کا تصور تھا جس میں بتایا جاتا تھا کہ سیٹ کیا ہوتا ہے، سب سیٹ کسے کہتے ہیں ،مثلاً اگر ایک جماعت میں پچاس بچے ہوں تو ہم کہیں  گےکہ یہ پچاس بچوں کا سیٹ ہے ۔ یہ تھیوری ایسی ہی آسان مثالوں سے شروع ہوتی مگر آگے چل کر اتنی پیچیدہ ہوجاتی  کہ دماغ کی چولیں ہل جاتی تھیں۔ اِس تھیوری کا موجد جرمن ریاضی دان جارج کینٹر تھا۔ کینٹر نے ثابت کیا کہ سب سے بڑا ’عدد اصلی‘ (cardinal number) کوئی چیز نہیں یعنی اسے پایا نہیں جا سکتا۔ عدد اصلی وہ عدد ہوتا ہے جو کسی سوال کا جواب فراہم کرے ۔ مثلاً اگر ہم کسی بس میں بیٹھے ہوئے مسافروں کو گنیں اور جواب بیس آئے تو بیس عدد اصلی کہلائے گا۔ اِس کے برعکس اگر آپ صبح چھ بجے سے موٹر وے ٹول پلازا سے گزرنے والی گاڑیوں کو یوں گننا شروع کریں کہ یہ پہلی گاڑی ہے ، یہ دوسری ہے اور یہ تیسری توآپ کہیں گےایک، دو ، تین، چار ، پانچ ۔۔۔اوریہ عام اعداد کہلائیں گے۔کینٹر کی تھیوری کے مطابق اصلی اعداد کا سیٹ بنایا جا سکتا ہے، یہ سیٹ محدود بھی ہو سکتا ہے اور لا محدود  بھی۔ مثال کے طور پر قدرتی اور حقیقی اعداد کا سیٹ لا محدود کہلائے گا۔ کینٹر نے ثابت کیا کہ قدرتی اعداد کے مقابلے میں  حقیقی اعداد کے سیٹ میں زیادہ عدد ہوتے ہیں۔ جنہیں قدرتی اور حقیقی اعداد کا فرق نہیں معلوم اُن کے لیے اتنا جاننا کافی ہے کہ ایک، دو، تین، چار، پانچ، چھ وغیرہ کو قدرتی اعداد کہا جاتا ہے جبکہ حقیقی اعداد میں اِن قدرتی اعداد کے علاوہ منفی ایک، منفی دو، منفی تین وغیرہ بھی شامل ہوتے ہیں۔ گویا ہم کہہ سکتے ہیں کہ قدرتی اعداد کا سیٹ حقیقی اعداد کا سب سیٹ ہوتا ہے۔ س، حقیقی اعداد زیادہ ہونے کا یہ پہلا ثبوت تھا جو کینٹر نے پیش کیا۔ دوسرا ثبوت یہ تھا کہ ہر قدرتی عدد کو حقیقی عدد سے ’تشبیہ‘ نہیں دی جا سکتی۔ مطلب یہ کہ ہم ایک کے

مقابلے میں ایک ، دو کے مقابلے میں دو ، تین کے مقابلے میں تین تو رکھ سکتے ہیں مگر حقیقی اعداد منفی ایک، منفی دو یا منفی تین کے مقابلے میں قدرتی اعداد ایک ، دو یا تین نہیں رکھ سکتے۔ اِس سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ حقیقی اعداد، قدرتی اعداد کے مقابلے میں ’اکثریت‘ میں ہیں۔ کینٹر نے بات یہاں ختم نہیں کی بلکہ ایک قدم آگے بڑھ کر مزید پیچیدگی یہ پیدا کی کہ کسی بھی سیٹ میں اُس کی ’طاقت‘ سے کم تعداد میں عدد ہوتے ہیں۔ یعنی کسی سیٹ میں اگر ’x‘ نمبرز ہیں تو 2 xکے سب سیٹ میں ہمیشہ اُس سے زیادہ نمبر ہوں گے۔ یوں کینٹر نے ثابت کیا کہ کبھی کوئی عدد اصلی  اعظم  (greatest cardinal number) نہیں ہوسکتا کیونکہ ہم بڑے سے بڑا عدد اصلی کیوں نہ اٹھا لیں، اُس کا ’طاقت ور ‘ سیٹ ہمیشہ اُس سے بڑا ہی رہےگا۔

جارج کینٹر کاتو پتا نہیں،مجھے البتہ یہاں تک لکھتے ہوئے دانتوں تلے پسینہ ضرور آ گیا ہے۔ کینٹر کی یہ تھیوری ریاضی سے زیادہ فلسفیانہ ہے۔ مجھے تو یوں لگتا ہے جیسے کسی حد تک یہ خدا کے تصورسے ہم آہنگ ہے۔ جس طرح خدا کی لامحدودیت ہمارے دماغ میں نہیں سما سکتی اسی طرح عدد اصلی اعظم بھی ہمارے تصور میں نہیں آ سکتا کیونکہ اسے پانا ممکن نہیں، ہم کچھ بھی کرلیں اُس کی عظمت کا احاطہ نہیں کرسکتے، مادی دنیا کے کسی پیمانے پر اسے جانچانہیں جا سکتا، ہم تصوراتی طور پراپنی سوچ کو لامحدود زمان و مکان میں ہی کیوں نہ لے جائیں، وہ ’اسم اعظم ‘پھر بھی اُس تصور زمان و مکان سے باہر ہی رہے گا۔ برٹرینڈ رسل کو کینٹر کی یہ سیٹ تھیوری کھٹکتی تھی ، اسے لگتا تھا کہ اِس تھیوری میں کہیں نہ کہیں کوئی گڑ بڑضرور ہے ۔دلیل اُس کی یہ تھی کہ ایک ایسا عدد جو تمام اعداد سے بڑا ہواورجس میں ہرقسم کی تمام اشیا شامل کی جاسکتی ہوں، اور اس سے بڑا کوئی عدد نہ ہو کیونکہ ہر ممکنہ شے اُس میں پہلے سے موجود ہو اور کوئی شے باقی نہ بچی ہو اور اِس کے باوجود، بقول کینٹر، وہ عدد اصل اعظم نہ سمجھا جائے، توایک تضاد پیدا ہوجائے گا جسے دور کرنا ضرور ی ہوگا۔ رسل کے پاس اِس تضاد کا کوئی حل نہیں تھا اِس لیے شروع میں چار و ناچاراُس نے یہ تھیوری تسلیم کرلی۔ رسل لکھتا ہے :’’سو آپ نے جانا کہ دنیا میں موجود تمام اشیا تعداد میں اتنی زیادہ نہیں جتنی کہ اُن اشیا کی بنیاد پر درجے ہیں جنہیں ترتیب دیا جا سکتا ہے ۔۔۔۔ چنانچہ دنیا کی تمام اشیا مل کر بھی کسی طرح عدد اصلی اعظم سے زیادہ نہیں ۔۔۔ گویا اب آپ کو اِس بات کا حتمی اور کامل ثبوت ریاضی سے مل گیا ہے کہ زمین و آسمان میں بھی کل ملا کراتنی اشیا نہیں جتنی اشیا کا تصور ہم اپنے فلسفے کی بنیاد پر کر سکتے ہیں ۔‘‘  رسل نے یہاں شیکسپئیر کے اُس مشہور زمانہ مکالمے پر چوٹ کی ہے کہ ’’There are more things in heaven and earth, Horatio, than are dreamt of in your philosophy‘‘۔ یعنی بقول رسل، فلسفے میں سوچ کی کوئی حد نہیں ۔ بعد ازاں  رسل نے کینٹر کی سیٹ تھیوری میں موجود تضاد کا حل تلاش کر ہی لیا۔ رسل نے کہا کہ اشیا کے مختلف درجے دراصل اشیا نہیں ہوتیں، یعنی جب ہم کہتے ہیں کہ اِس درجے میں مرد ہیں تو وہ درجہ بذات خود ’مرد‘ نہیں بن جاتا وہ محض ایک ’منطقی خیال‘ ہوتا ہے جس کا کوئی ٹھوس وجود نہیں ہوتا لہذا جب ہم اشیا کی درجہ بندی کرتے کرتے کرتے ایک لا متناہی سلسلہ شروع کر دیتے ہیں تو وہ محض خیالی منطق ہوتی ہے۔ یہیں سے رسل نے اپنے اُس معمے کی بنیاد بھی رکھی جسے ’Russell Paradox‘ کہتے ہیں۔ نہ جانے کیوں مجھے یوں لگتا ہے کہ رسل کو اِس بات کا اندازہ تھا کہ کینٹر کی تھیوری اُس کے فلسفہ الحاد کے خلاف تھی اِس لیے اسے رد کرنا رسل کی مجبوری تھی۔ ویسے کینٹر کوبھی بعد میں اِس بات کا احساس ہوگیا تھا کہ اُس کی تھیوری میں تضاد ہے اور اِس بات کا اظہار اُس نے اپنے  خطوط میں بھی کیا ہے۔ دلچسپ بات مگر یہ ہے کہ رسل کے جواب الجواب میں ایک اور ریاضی دان کرٹ گوڈل نے کہا کہ جس درجہ بندی کو رسل  محض منطقی خیال کہہ رہا ہے اُس پر یقین کرنے کی بھی اتنی ہی وجہ ہے جتنی اِس دنیا میں مادی اشیا کا وجود قبول کرنے کی۔ظاہر ہے کہ گوڈل  ملحد نہیں تھا اور زندگی بعد از موت پر یقین رکھتا تھا۔

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں نے یہ کالم کیوں لکھا ہے؟ مجھے کیا ضرورت تھی آپ کو  سیٹ تھیوری ’پڑھانے ‘کی؟ اگر نمبرز کے بارے میں ہی لکھنا تھا تو یہ لکھتا کہ حکومت اور حزب اختلاف میں سے کس کے نمبرز پورے ہیں ؟ کون طاقتور ہے؟ کس کا سیٹ مضبوط ہے؟ اِس ضمن میں گزارش یہ ہے کہ بندہ اِن معاملات میں بالکل کورا ہے۔ ویسے بھی اِن موضوعات پر لکھنے والے مجھ سے کہیں زیادہ جہاندیدہ ہیں جو اندر کی خبر رکھتے ہیں ۔ میں تو آپ کو فقط یہ بتا سکتا ہوں کہ جارج کینٹر کی سیٹ تھیوری صرف مابعد الطبیاتی دنیا پر ہی  منطبق نہیں ہوتی  بلکہ اسے  پاکستان پر بھی لاگو کیا جا سکتا ہے ۔ یہاں آپ طاقتور لوگوں کا ایک سیٹ بنا لیں، اُس سیٹ میں مزید طاقتور لوگوں کاسب سیٹ بنا لیں  اور پھر آگے سے مزیدایک سیٹ بنا لیں اور بناتے چلے جائیں تب بھی یہ تمام سیٹ اُس طاقتور سیٹ سے زیادہ بڑے نہیں ہوں گے جن کی طرف کینٹر نے اشارہ کیا تھا ۔تھوڑے کہے کو بہت جانیں، ’مرشِد‘ نے مجھے اِس سے زیادہ بتانے کی اجازت نہیں دی۔   

نوٹ: اِس کالم میں دی گئی معلومات کا ماخذبرطانوی فلسفی اور مصنف ’رے مونک‘ کابرٹرینڈ رسل پر لکھا گیا مضمون ہے۔


(یہ کالم آج ۲۷ مارچ ۲۰۲۲ کو روزنامہ جنگ میں شائع ہوا)

#yasirpirzada Daily Jang Geo News Urdu #Pakistan #Urdu #literature #society #mathematics #BertrandRussell #GeorgCantor #settheory #numbers

No comments:

Post a Comment

WHY YOU ANGRY